وحشت جاں کو پیام نگہ ناز تو دو

وحشت جاں کو پیام نگہ ناز تو دو
اس فسانے کو ذرا گرمئ آغاز تو دو


میرے قدموں کے نشاں راہ سے کچھ دور سہی
تم سے میں دور نہیں ہوں مجھے آواز تو دو


دل میں طوفان نہیں ہو تو کرے کیا نغمہ
میں سناتا ہوں یہی راگ مجھے ساز تو دو


کوئی بنیاد نہیں قید تعلق کی ابھی
جذبۂ غم کو ذرا فکر کا انداز تو دو


اس نے سینے سے لگایا جو کہا میں نے حسنؔ
دل میں رکھنے کے لیے اپنا کوئی راز تو دو