وہی تعلق خاطر جو برق و باد میں ہے
وہی تعلق خاطر جو برق و باد میں ہے
دل ستم زدہ کی حسرت و مراد میں ہے
ہر ایک عہد کی ہوتی ہے اک خصوصیت
ہمارے دور میں یکسانیت تضاد میں ہے
کسی نتیجے پہ پہنچے ہیں غور و فکر کے بعد
تو یہ کہ سارا جہاں ایک گرد باد میں ہے
اگر نظر ہو تو پڑھ لو پیام بیداری
فصیل شہر پہ لکھا ہوا فساد میں ہے
وہ بات ساری کتابوں میں مل نہیں سکتی
جو انقلاب کے چھوٹے سے استناد میں ہے
وہی اساس محبت بھی ہے عقیدت بھی
وہ اعتماد کا پہلو جو اعتقاد میں ہے
وہی تو فن میں روایت کی روح ہے آذرؔ
وہ ایک چھوٹا سا نکتہ جو اجتہاد میں ہے