وہی کثیف گھٹائیں وہی بھیانک رات

وہی کثیف گھٹائیں وہی بھیانک رات
سحر سے جیسے گریزاں ہوں آج بھی لمحات


وہی جفائیں وہی سختیاں وہی آفات
تمہیں بتاؤ کہ بدلے کہاں مرے دن رات


یہ برق و باد کی یورش یہ زہر کی بارش
ملی ہے اہل چمن کو بہار کی سوغات


دلوں میں آگ نگاہوں میں آگ باتوں میں آگ
کبھی تو یوں بھی نکلتی ہے غمزدوں کی برات


کبھی کبھی تو زمیں آسماں چمک اٹھے
کبھی کبھی تو دہک اٹھے خاک کے ذرات


خزاں رسیدہ چمن آگ ہو گئے جذبیؔ
ہمارے دیدۂ پرخوں میں تھی مگر کچھ بات