وہی ہے دست جنوں ہمارا بدلتا رہتا ہے گو قرینہ (ردیف .. ا)
وہی ہے دست جنوں ہمارا بدلتا رہتا ہے گو قرینہ
اسی سے دامن کو چاک کرنا اسی سے دامن کے چاک سینا
خدا بچائے تو بچ سکیں گے سوال اب ناخدا کا کیا ہے
کنارا دور اور تھکے ہیں بازو گھرا ہے طوفان ہیں سفینہ
جہاں نہیں خون کی ضرورت وہاں غلط ناز سرفروشی
جو کشت محنت کو سینچتا ہو لہو سے بہتر ہے وہ پسینہ
یہ سقف دیر و حرم نہیں ہے یہ آسماں عشق کا ہے اس پر
وہی مسافر قدر اٹھائے بنا سکے جو دلوں کو زینہ
ردائے زرین مہر تاباں خلا میں ہے تار تار جب تک
امام کی دل کی دھڑکنوں سے کہانی بنتی رہیں مبینہؔ
اٹھی پلانے کی رسم احساںؔ تو کیوں نہ خالی رہیں پیالے
خدا کی برکت ہے میکدے میں بھرے ہیں خم اور بھرا ہے مینا