شاعر ہوئے تو کیا ہوئے احسانؔ ہی رہے

شاعر ہوئے تو کیا ہوئے احسانؔ ہی رہے
مرزاؔ و میرؔ بن نہ سکے خان ہی رہے


امکاں کے دائرے کو جو وسعت نہ دے سکے
اپنے حدود ذات کا عرفان ہی رہے


جب دل ہو مضطرب تو کہاں تک خودی کی لاج
اے ناز حسن آج تری آن ہی رہے


آہٹ کسی کے پاؤں کی آئی نہ صبح تک
ہم دل کی دھڑکنوں کے نگہبان ہی رہے


پہنچا نہ دست شوق جو دامان یار تک
بے شغل کیوں ہو اپنا گریبان ہی رہے


ہے التجائے شوق میں بھی طنطنہ وہی
احسانؔ عشق کرکے بھی احسانؔ ہی رہے