وفا کے شہر میں مقبول تھی صدا کتنی

وفا کے شہر میں مقبول تھی صدا کتنی
مگر نہ پہنچی یہ ان تک تھی نارسا کتنی


تمام عمر جلے آتش ندامت میں
ملی ہے پیار کے اظہار کی سزا کتنی


نکل کے صحن چمن سے نہ پھر کبھی پلٹی
حسین پھولوں کی خوشبو تھی بے وفا کتنی


میں بن کے تیز ہوا چل رہا ہوں مدت سے
ذرا نگاہ تو ڈالو چھٹی گھٹا کتنی


وفا پرستوں کی نگری میں ناروا ہے جو
ہوس کے شہر میں وہ بات ہے روا کتنی


میں اپنی روح کی آواز سن سکا نہ سرورؔ
مرے گناہوں کی پر شور تھی صدا کتنی