وفا کے راز سے پردہ نہیں اٹھاؤں گی
وفا کے راز سے پردہ نہیں اٹھاؤں گی
میں دل کے زخم تہ دل سے ہی چھپاؤں گی
اگر تمہاری نگاہوں میں یہ کھٹکتا ہے
سنو میں آج سے کاجل نہیں لگاؤں گی
اداس دل ہو تو گلشن بھی آہ بھرتا ہے
یہ سچ ہے روتے ہوئے دل سے مسکراؤں گی
جو مجھ پہ گزری ہے اشکوں سے وہ عبارت ہے
جو نقش دل میں ہے کیسے اسے مٹاؤں گی
ہر ایک بات کو سن کر جو ان سنی کر دے
اسے میں درد کی روداد کیا سناؤں گی
کبھی تو آئے وہ اے زندگی مرا بن کر
قسم خدا کی میں راہوں کو بھی سجاؤں گی
جو میرے دل کی صدا ہی نہ سن سکا تو پھر
اسے میں نوحۂ دل کس طرح سناؤں گی
تمہارا ساتھ مقدر میں گر نہیں ہے لکھا
تو یاد بن کے میں دل میں کہیں سماؤں گی
جو خواب دیکھے ہیں دل ان سے کیوں الجھتا ہے
میں اب یہ فلسفہ شاید سمجھ نہ پاؤں گی
وہ جب ملے تو یہ اس سے ضرور کہہ دینا
وہ اس برس بھی نہ آیا تو مر ہی جاؤں گی
یقیں ہے رب پہ سبیلہؔ وہ میری سن لے گا
میں ہو کے با وضو ہاتھوں کو جب اٹھاؤں گی