وفا کا ذکر ہی کیا ہے جفا بھی راس آئے
وفا کا ذکر ہی کیا ہے جفا بھی راس آئے
وہ مسکرائے تو جرم خطا بھی راس آئے
وطن میں رہتے ہیں ہم یہ شرف ہی کیا کم ہے
یہ کیا ضرور کہ آب و ہوا بھی راس آئے
ہتھیلیاں ہیں تری لوح نور کی مانند
خدا کرے تجھے رنگ حنا بھی راس آئے
دوا تو خیر ہزاروں کو راس آئے گی
مزہ تو جینے کا جب ہے شفا بھی راس آئے
تو پھر یہ آدمی خود کو خدا سمجھنے لگے
اگر یہ عمر گریزاں ذرا بھی راس آئے
اب اس قدر بھی نہ کر جستجوئے آب بقا
گل ہنر ہے تو باد فنا بھی راس آئے
یہ تیرا رنگ سخن تیرا بانکپن اے شاذؔ
کہ شعر راس تو آئے انا بھی راس آئے