واقعہ سچ ہی سہی ہم کہہ کے پچھتائے بہت

واقعہ سچ ہی سہی ہم کہہ کے پچھتائے بہت
دوستوں نے پتھروں کے پھول برسائے بہت


آنکھ اٹھا کے ہم نے دیکھا ہی نہیں خود کو کبھی
گردش ایام نے آئینے دکھلائے بہت


ایک دل ہے رنج و غم کی بستیوں کے درمیاں
ایک گھر کے واسطے ہیں اتنے ہمسائے بہت


جانے کیسا تھا سفر منزل کہاں پر رہ گئی
ہم حدود ذات سے آگے نکل آئے بہت


توبہ آغاز محبت کی کشاکش کشمکش
ہم بھی گھبرائے بہت اور وہ بھی شرمائے بہت


کیا عجب ہے آسماں سے خون کی بارش ہوئی
کھیت جلتے ہی رہے دریا تو لہرائے بہت