اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے
اٹھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹھے
دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اٹھے
دم بھر مرے پہلو میں انہیں چین کہاں ہے
بیٹھے کہ بہانے سے کسی کام کے اٹھے
اس بزم سے اٹھ کر تو قدم ہی نہیں اٹھتا
گھر صبح کو پہنچے ہیں کہیں شام کے اٹھے
ہے رشک کہ یہ بھی کہیں شیدا نہ ہوں اس کے
تربت سے بہت لوگ مرے نام کے اٹھے
افسانۂ حسن اس کا ہے ہر ایک زبان پر
پردے نہ کبھی جس کے در و بام کے اٹھے
آغاز محبت میں مزے دل نے اڑائے
پوچھے تو کوئی رنج بھی انجام کے اٹھے
دل نذر میں دے آئے ہم اک شوخ کو بیخودؔ
بازار میں جب دام نہ اس جام کے اٹھے