نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں

نہ ارماں بن کے آتے ہیں نہ حسرت بن کے آتے ہیں
شب وعدہ وہ دل میں درد فرقت بن کے آتے ہیں


پریشاں زلف منہ اترا ہوا محجوب سی آنکھیں
وہ بزم غیر سے عاشق کی صورت بن کے آتے ہیں


بنے ہیں شیخ صاحب نقل مجلس بزم رنداں میں
جہاں تشریف لے جاتے ہیں حضرت بن کے آتے ہیں


نہ رکھنا ہم سے کچھ مطلب یہ پہلی شرط ہے ان کی
وہ جس کے پاس آتے ہیں امانت بن کے آتے ہیں


ستم کی خواہشیں بیخودؔ غضب کی آرزوئیں ہیں
جوانی کے یہ دن شاید مصیبت بن کے آتے ہیں