اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا
اٹھائیں ہجر کی شب دل نے آفتیں کیا کیا
امید وصل میں جھیلیں مصیبتیں کیا کیا
وہی ہے جام وہی مے وہی سبو لیکن
بدل گئی ہیں زمانے کی نیتیں کیا کیا
دبی زبان سے کرتے ہیں غیر در پردہ
تمہارے منہ پہ تمہاری شکایتیں کیا کیا
ستم میں لطف، جفا میں ادا نگاہ میں ناز
عتاب میں بھی ہیں پنہاں عنایتیں کیا کیا
کروں میں ان کی شکایت عزیزؔ جھوٹ غلط
گڑھی ہیں دل سے رقیبوں نے تہمتیں کیا کیا