اسی یقین اسی دست و پا کی حاجت ہے
اسی یقین اسی دست و پا کی حاجت ہے
امام وقت کو پھر کربلا کی حاجت ہے
کہیں نہ تجھ کو ترا شوق بے لباس کرے
ترے جنوں کو جو میری قبا کی حاجت ہے
کہاں سے آئے ابابیل ابرہہ کے لئے
ترے بشر کو تو مال و غنا کی حاجت ہے
عجیب طرز تکلم ہے اہل منصب کا
بہت دنوں سے کسی خوش ادا کی حاجت ہے
تمام حرب و جدل آزما کے ہار گئے
اٹھاؤ دست دعا اب دعا کی حاجت ہے