اسے بیتاب ہو کر سوچتی ہوں

اسے بیتاب ہو کر سوچتی ہوں
میں اک گلفام اکثر سوچتی ہوں


ہوئی حائل کچھ ایسی بد گمانی
میں اک ہیرے کو پتھر سوچتی ہوں


وہ اک لمحہ جو بیتا کل ہے میرا
میں ہر لمحہ وہ منظر سوچتی ہوں


ہوں جس کی ذات سے وابستہ کب سے
اب اس کو اپنا محور سوچتی ہوں


مری ڈولی جہاں سے سج کے نکلی
میں بابل کا وہی گھر سوچتی ہوں


یہ ہاؤ ہو بدن کے گھاؤ پر ہے
مگر میں دل کے نشتر سوچتی ہوں


تمہاری یاد کے بادل جو آئے
تو بن کر باد‌ صر‌صر سوچتی ہوں


سبیلہؔ کیا کہوں منزل کہاں ہے
خدا واقف ہے جو در سوچتی ہوں