ہجرت

نہ پوچھ مجھ سے
کہ جنگ، لشکر،
سسکتے پتھر،
فضا کے آنسو
ہوا کے تیور
یہ رائیگانی
بکھرتے محور
یہ سارے کیوں کر؟
کہ رفتہ رفتہ،
میں سخت جانی کی ڈالیوں سے لچک پڑا ہوں
گزر چکا ہوں میں ہر کہانی کی حد سے باہر
پڑا ہوا ہوں میں اپنے معنی کی حد کے باہر!!