اس نے مے پی کے سر بزم جو ساغر الٹا

اس نے مے پی کے سر بزم جو ساغر الٹا
ورق انجمن دہر سراسر الٹا


دیکھنے والے کو دنیا ہے سراپا تصویر
گو ہے آئینے میں عکس رخ دلبر الٹا


کر دیا آ کے چمن کو تہ و بالا کس نے
کوئی سیدھا ہے یہاں کوئی گل تر الٹا


ناز سے مجھ کو سر بزم جو ساقی نے دیا
ہاتھ تھرائے کچھ اس طرح کہ ساغر الٹا


اے خدا کیا یوں ہی آتی ہے کسی دوست کی یاد
آ گیا منہ کو کلیجہ دل مضطر الٹا


داد خواہان محبت کا یہ انبوہ کثیر
دل مرا دیکھ کے ہنگامۂ محشر الٹا


جس پہ کہ بیٹھ کے واعظ نے مذمت مے کی
مجلس وعظ میں رندوں نے وہ منبر الٹا


یا زمانے میں محبت کے فسانے ہیں غلط
یا مرا نقش وفا ہے مرے دل پر الٹا


تا کجا اے دل بیمار یہ راحت طلبی
عمر بھر جب سے بچھا پھر نہ یہ بستر الٹا


اٹھ گئی آج زمانے سے بساط الفت
بستر مرگ مرا اس نے یہ کہہ کر الٹا


اشک باریٔ شب ہجر کا کیا حال لکھوں
دیدۂ تر نے نظرؔ ایک سمندر الٹا