سارے عالم سے مرے غم کا ہے افسانہ جدا
سارے عالم سے مرے غم کا ہے افسانہ جدا
دل کے ماتم کے لیے چاہیے غم خانہ جدا
گرچہ وحشت کا نہیں ہے کوئی افسانہ جدا
پر نظر آتا ہے سب سے ترا دیوانہ جدا
قربت حسن غضب ہے کہ سر محفل ناز
اس کے لب سے نہیں ہوتا لب پیمانہ جدا
اے خدا کشمکش یاس و تمنا کب تلک
ان کے رہنے کے لئے دل میں ہو ہر خانہ جدا
آج تنگ آ کے یہ ناصح کو دیا میں نے جواب
مذہب شیخ جدا مشرب رندانہ جدا
خشک ہو جائے جو باقی ہے رگ جاں میں لہو
دل سے ہونا نہ ابھی اے غم جانانہ نہ جدا
بے خودی میں بھی رقابت کا مگر ہے احساس
ایک صحرا میں ہے دیوانے سے دیوانہ جدا
صبر کی مجھ کو جدائی میں ہے تلقین فضول
یہ تو جب ہو کہ رہے شمع سے پروانہ جدا
دشت جاگیر ہے مجنوں کی تو کیا فکر نظرؔ
کھود کر گھر کو بنا لیجئے ویرانہ جدا