اس کی یاد کا عطر لگا کر نکلا تھا
اس کی یاد کا عطر لگا کر نکلا تھا
کیا سودا میں سر میں لے کر نکلا تھا
صبح کے سورج کا چہرہ تھا رخشندہ
رات کے خوں کا غازہ مل کر نکلا تھا
جانے کیوں اپنے کو شیشہ جانا پھر
خود ہی ہاتھ میں سنگ اٹھا کر نکلا تھا
اس نے راہ کے سارے پتھر توڑ دئے
وہ جو پہلی ٹھوکر کھا کر نکلا تھا
رنگینی اور خوشبو مجھ پر قرباں تھی
اس کا قصیدہ جب میں پڑھ کر نکلا تھا
جانے انساں نے کیا سوچا ہوگا جب
سورج پہلی بار فلک پر نکلا تھا
دور خزاں کے ختم کا یوں اعلان ہوا
تازہ پتا شاخ شجر پر نکلا تھا