اس کی خواہش ہے یہی حرف وضاحت کے بغیر

اس کی خواہش ہے یہی حرف وضاحت کے بغیر
اب کوئی خواب بھی دیکھے نہ اجازت کے بغیر


ہم کو ڈھونڈو تو ہمیں کھونے کی خاطر ڈھونڈو
خواب تعبیر نہیں ہوتے ہیں حسرت کے بغیر


دل کو اک کار مسلسل نے رکھا ہے آباد
ایک لمحہ بھی نہیں گزرا محبت کے بغیر


یوں بھی دشوار ہے آسودۂ صحرا ہونا
اور جب خاک بھی ہو جانا ہو وحشت کے بغیر


وقت سفاک ہے اتنا کبھی سوچا بھی نہ تھا
ہم اسے یاد نہ کر پائیں گے زحمت کے بغیر


ہم ترے قریۂ جاں تاب میں اتنا ٹھہرے
یعنی اک لمحہ گزار آئے ہیں عجلت کے بغیر


اب تو ہم خود سے بھی کم کم ہی ملا کرتے ہیں
کسی خواہش سے الگ اور ضرورت کے بغیر