اس کی آنکھوں میں بارہا میں نے خود کو ہنستا ہوا سا پایا ہے
اس کی آنکھوں میں بارہا میں نے خود کو ہنستا ہوا سا پایا ہے
اس کی آواز کی کھنک میں کبھی میرا لہجہ سا گنگنایا ہے
میری زلفیں کھلیں تو وہ مہکا ہونٹ اس کے ہلے تو میں بولی
میری سرگوشیوں میں بھی اکثر ذکر بن کر وہ مسکرایا ہے
میں نے سوچا جو اس کے بارے میں ڈھل گیا خود وہ میرے پیکر میں
جب پکارا ہے اس کو گھبرا کر وہ میری دھڑکنوں تک آیا ہے
کج روش آسماں کو کیا کہئے اب تو سایا گریز پا سا ہوا
ڈھونڈنے اس کو بارہا کل شب در بہ در آفتاب آیا ہے
کس کو کہتے ہیں جسم و جان کا قرب میں نہیں جانتی مگر پھر بھی
چونک اٹھی ہوں نیند سے اکثر جب وہ میرے شہر تک آیا ہے
کہنا چاہا تھا کچھ دم رخصت رک گیا تھا مگر نہ جانے کیوں
تیری اس ان کہی نے برسوں تک مجھ کو پہروں لہو رلایا ہے
چاہتوں میں شعور ہے کتنا نسبتیں ہیں غیور کس درجہ
جب ہوئی شرمسار میں اس کی چشم تر میں حجابؔ آیا ہے