کسی سے دشمنی کی اور نہ یاری
کسی سے دشمنی کی اور نہ یاری
ادھوری زندگی ہم نے گزاری
نہ منظر کوئی آنکھوں میں بسایا
نہ خوشبو کوئی سانسوں میں اتاری
دعا کے لفظ کنکر بن گئے ہیں
مرے اندر ہے کیسی سنگساری
شہر کی رونقیں اچھی بہت ہیں
پر اپنے گھر کی ویرانی ہے پیاری
وہی تو جیت کا احساس ہے اک
جو بازی جان کر ہم نے ہے ہاری
ہمیں خدشہ تھا جس کے ڈوبنے کا
اسی نے ناؤ سب کی پار اتاری
الاؤ جل رہے ہیں اندر اندر
ہوئی باہر ہے شاید برف باری
حجابؔ آیا تھا دل میں دھیرے دھیرے
مگر یک لخت آئی بے قراری