اس کا لہجہ کرخت ہوتا گیا

اس کا لہجہ کرخت ہوتا گیا
دل ہمارا بھی سخت ہوتا گیا


زخم کا ایک ننھا سا پودا
رفتہ رفتہ درخت ہوتا گیا


تھا سفر یوں تو بے سر و ساماں
شوق منزل ہی رخت ہوتا گیا


رہبری کا ہر اک علمبردار
خوگر تاج و تخت ہوتا گیا


تیری خاطر سمیٹ کر رکھا
دل مگر لخت لخت ہوتا گیا


عشق میں جس مقام سے گزرے
مرحلہ اور سخت ہوتا گیا


جس نے دیکھے تھے خواب اجالوں کے
وہ سخنؔ تیرہ بخت ہوتا گیا