اس کا انداز بھی چہرہ بھی غزل جیسا ہے

اس کا انداز بھی چہرہ بھی غزل جیسا ہے
وہ پڑوسی مرا لگتا بھی غزل جیسا ہے


دیکھنے والو اسے میری نظر سے دیکھو
یہ مرا چاند سا منا بھی غزل جیسا ہے


دھرم کے نام پہ یہ قتل کی سازش کچھ سوچ
تیرے ہمسائے کا بچہ بھی غزل جیسا ہے


حسن ایسا ہے کہ دیکھو تو لگے تاج محل
اس پہ وہ شخص سنورتا بھی غزل جیسا ہے


پت جھڑوں سے بھی ابھرتی ہیں بہاریں عاشقؔ
رنگ موسم کا بدلتا بھی غزل جیسا ہے