بچپن کے دن
ہائے وہ بچپن کے دن
صاف اور ستھرے سچے دن
یاد بہت آتے ہیں اب
اپنے تھے جب اپنے دن
فکر و تردد کس کو کہتے
دور غموں سے جب تھے دن
آنکھ مچولی اور کبڈی
گلی ڈنڈے والے دن
راتیں راحت سے بھرپور
اور شرارت والے دن
پیچھے پیچھے تتلی کے
پھلواری میں بیتے دن
آم امرود کے پیڑوں پر
ڈال پہ بیٹھے کھاتے دن
کاغذ پنسل اور کتاب
ایسی دولت والے دن
جسم غبار آلودہ لے کر
تالابوں میں تیراتے دن
کوئی نہیں تھا دشمن جب
سب کو دوست بناتے دن
توڑ لیں اوروں کے امرود
سب کے ساتھ وہ کھاتے دن
کاٹ لیں کھیتوں سے گنے
چوری پکڑے جاتے دن
شام پڑھائی میں گزرے
ہائے وہ مکتب والے دن
آہ مناظرؔ کس سے کہیں
میرے وہ لوٹا دے دن