اس حسیں کا خیال ہے دل میں

اس حسیں کا خیال ہے دل میں
جس کا آنا محال ہے دل میں


کیوں نہ دل اس خیال سے خوش ہو
کہ تمہارا خیال ہے دل میں


کیا کرے رہ کے وہ خدنگ نگاہ
اب لہو کا بھی کال ہے دل میں


جائے تنگ است مردماں بسیار
حسرتوں کا یہ حال ہے دل میں


نوحؔ گو منہ سے کچھ نہیں کہتے
ان کو تم سے ملال ہے دل میں