عمر ساری یوں ہی گزاری ہے

عمر ساری یوں ہی گزاری ہے
دن کسی کے ہیں شب ہماری ہے


کہہ رہی ہے یہ شام تنہائی
آج کی رات ہم پہ بھاری ہے


دو گھڑی پیار کی کریں باتیں
دل جلانے کو عمر ساری ہے


کچھ پرندے فضا میں اڑتے ہیں
کچھ پرندوں پہ خوف طاری ہے


جیسے صحرا میں اک شجر تنہا
ہم نے یوں زندگی گزاری ہے


اپنا شیوہ محبتیں کرنا
آگے مرضی حسنؔ تمہاری ہے