عمر اک نا قابل تردید سچائی ہے
بہت پہلے میں اپنی ماں کی باتیں سن کے
ان پہ خوب ہنستی تھی
کہ امی آپ سارا دن کبھی ٹانگوں کبھی بازو
کبھی سر یا کمر کے درد کے قصے سناتی ہیں
الرجی کے کئی حملے دوائیوں کے کئی شکوے
ہمیشہ ہی بتاتی ہیں
ہمیشہ شہر کے سارے کلینک ڈاکٹر نرسیں
کہاں پہ ہیں یا کیسے ہیں
سبھی کچھ جانتی ہیں
ان کی باتیں بھی سناتی ہیں
کبھی تو اور کوئی بات بھی مجھ سے کیا کیجے
تو امی ہنس کے کہتی تھیں
ثمینہؔ عمر کے اس دور میں اور کوئی بات باقی ہی نہیں رہتی
اور اب میں خود پہ ہنستی ہوں
مرے ٹاپک بدلتے جا رہے ہیں
میرے اندر عمر کی دیمک
کئی برسوں سے مجھ کو کھا رہی ہے
اور میں چاہوں بھی تو کچھ کر نہیں سکتی
مجھے جب لوگ کہتے ہیں
ثمینہؔ آپ تو اس عمر میں بھی
تو میں اب خود پہ ہنستی ہوں
میں ہنستی ہوں
میں ہنستی ہوں