اجالا کیسا اجالے کا خواب لا نہ سکے
اجالا کیسا اجالے کا خواب لا نہ سکے
سحر سے مانگ کے ہم آفتاب لا نہ سکے
ہم اپنے چہرۂ بے داغ کے لئے اے عقل
تری دکان سے کوئی نقاب لا نہ سکے
جو چاند پر بھی گئے ہم تو خاک ہی لائے
زمیں کی نذر کو اک آفتاب لا نہ سکے
گئے تو تھے ترے جلووں کو جانچنے لیکن
بچا کے ہم نظر انتخاب لا نہ سکے
زمیں کی بات زمیں کی زباں میں کہنا تھی
ہم آسمان سے کوئی کتاب لا نہ سکے