اف ادائیں دکھا رہی ہیں وہ
اف ادائیں دکھا رہی ہیں وہ
مسکرا کر ستا رہی ہیں وہ
ہم فقیرو کی اپنے کوچے میں
ایک محفل سجا رہی ہیں وہ
کب سے نظریں بچائے بیٹھے ہیں
یہ خبر ہے کہ آ رہی ہیں وہ
ہے گہن چاند کو لگا دیکھا
رخ سے پردہ اٹھا رہی ہیں وہ
سارے عالم میں پھیلی بے چینی
زلف بکھرائے جا رہی ہیں وہ
زلف ماتھے پہ بدلیاں جیسے
ابر سی بنتی جا رہی ہیں وہ
ہم اسیر نگاہ ناز ہوئے
کاہے آنکھیں ملا رہی ہیں وہ
ترچھی نظروں سے میرے شانے پر
زخم کاری لگا رہی ہیں وہ
میرا صبر و قرار چھین لیا
کیا ستم ہے کہ ڈھا رہی ہیں وہ
سر کو اپنے فرازؔ خم کر دیں
سجدۂ رب میں جا رہی ہیں وہ