اداسیوں کے سوا دل کی زندگی کیا ہے
اداسیوں کے سوا دل کی زندگی کیا ہے
کوئی بتائے کہ خوابوں کی برہمی کیا ہے
کبھی چمن سے جو گزرے چمن سے خود پوچھے
صبا مزاج چمن ہم سے پوچھتی کیا ہے
یہ تیرگیٔ مسلسل ہزار بار قبول
مگر یہ دور چراغوں کی روشنی کیا ہے
یہ اہل دل کہ اڑاتے ہیں میرے غم کا مذاق
یہ بے حسی جو نہیں ہے تو بے حسی کیا ہے
نہ پوچھ مجھ سے جو کار ثواب میں ہے مزہ
یہ پوچھ مجھ سے گناہوں میں دل کشی کیا ہے
مشام جاں نہ معطر ہو جس سے وہ گل کیا
جو نشہ لا نہ سکے وہ شراب ہی کیا ہے
نظر سے دور ہے جذبیؔ سواد منزل تک
نہ جانے ذوق طلب میں مرے کمی کیا ہے