ابھر رہی ہے کرن صبح ضو فشاں کے لئے
ابھر رہی ہے کرن صبح ضو فشاں کے لئے
سنور رہی ہے فضا حسن گلستاں کے لئے
مری فسردہ امیدوں کو کر دیا خنداں
یہ التفات نظر اک شکستہ جاں کے لئے
خدا کے در پہ تو سجدہ کناں ہے اک دنیا
مری جبیں ہے فقط تیرے آستاں کے لئے
ترے حضور میں آیا تو کھو گیا ایسا
زبان کھل نہ سکی عرض داستاں کے لئے
انہیں شکست محبت کا خوف کیا اخگرؔ
کفن بدوش جو نکلے ہیں امتحاں کے لئے