ٹوٹتے رہنا ٹوٹ کے پھر مرجھانا بھی

ٹوٹتے رہنا ٹوٹ کے پھر مرجھانا بھی
جیسے بچھڑنا اور بچھڑتے جانا بھی


مٹی ہو تم مٹی بن کر دکھلاؤ
پتھر ہونا پتھر سا ہو جانا بھی


پابندی ڈر نفرت قید نہ جانے کیا
مڑ کر دیکھا اس نے اور پہچانا بھی


مجھ سے ترک تعلق کا چرچا کرنا
میری گلی میں چھپ چھپ آنا جانا بھی


جھوٹ کا ثابت ہو جانا سچ کھل جانا
رات پہ پردہ کرنا دن کا آنا بھی


الٹی سیدھی باتیں گانے موسیقی
موبائل نے چھینا پینا کھانا بھی


تتلی جیسے اڑنا بل کھانا رکنا
الہڑ پن کی فطرت ہے اٹھلانا بھی


من مانی شرطوں پر ہٹ دھرمی کرنا
دوری قائم رکھنا پیار جتانا بھی


دن بھر تپ کر سورج بن جائے کندن
ڈوبتے وقت کا منظر خوب سہانا بھی


اندھے کنوئیں کو جائے اماں سمجھے رہنا
خود ہی درد اٹھانا شور مچانا بھی


سوچ سمجھ کر نورؔ نہیں کہتا پھر بھی
ہوش کی باتیں کرتا ہے دیوانہ بھی