صاف دل تھا سب کے گھر جاتا تھا میں

صاف دل تھا سب کے گھر جاتا تھا میں
جتنا ادنیٰ اتنا ہی اعلیٰ تھا میں


رات کے سایوں سے میرا ربط تھا
صبح ہو جانے پہ گھر لوٹا تھا میں


اس الکٹرک پول کے سائے تلے
ٹکٹکی باندھے ہوئے بیٹھا تھا میں


پھر نیا سورج اگانے کے لئے
صبح صادق کی طرح ابھرا تھا میں


میں کبھی پربت کے جیسا تھا اٹل
یا ذرا سی ٹھیس پر بکھرا تھا میں


اک چمکتے آئنے کا عکس تھا
اور بچے کی طرح لپکا تھا میں


بٹ گیا ہوں آج جسموں میں کئی
نورؔ کل تک کس قدر تنہا تھا میں