تو میرے ساتھ ہتھیلی اٹھا نکل آئے

تو میرے ساتھ ہتھیلی اٹھا نکل آئے
کوئی دعا نہ سہی بد دعا نکل آئے


کبھی کبھار اسے چوم لیں تو ممکن ہے
ہمارے منہ سے بھی شکر خدا نکل آئے


خبر کی تاک میں بیٹھے ہوئے تو چاہیں گے
کسی طرح سے کوئی واقعہ نکل آئے


یہی تو دکھ ہے قبیلہ بھی خاندان تھا ایک
مگر مزاج ہی اپنے جدا نکل آئے


مرے ہوؤں کی تلاشی میں ہو بھی سکتا ہے
کسی کی جیب سے اس کا پتہ نکل آئے


اٹھا رہا ہوں یہی سوچ کر زیاں پہ زیاں
کسی کی خیر کسی کا بھلا نکل آئے


مجھے خبر ہے کہ یہ لوگ لوٹ جائیں گے
اگر یہاں سے کوئی راستہ نکل آئے


نیا سفر ہو مبارک مگر کرو گے کیا
وہاں بھی ایسی ہی آب و ہوا نکل آئے


نکل رہا ہوں میں اس دل سے اس طرح ساحرؔ
کہ جیسے کاٹ کے قیدی سزا نکل آئے