ہوا میں تیر رہے ہیں سحاب مٹی کے

ہوا میں تیر رہے ہیں سحاب مٹی کے
زمیں پہ آئیں گے اک دن عذاب مٹی کے


مجھے تو اس سے کئی آدمی بنانے تھے
پرند بھی نہ بنے دستیاب مٹی کے


فلک سے نور کی صورت سوال اترے تھے
دیے زمین نے لیکن جواب مٹی کے


یہ کس جہان میں مجھ کو گمان لے آیا
ابھر رہے ہیں یہاں آفتاب مٹی کے


پھر ایک روز اسے چاک پر اتارا گیا
پھر اس کے بعد ہوئے دن خراب مٹی کے


کیے گئے تھے ہزاروں ہی تجربات مگر
بدن رہے ہیں فقط کامیاب مٹی کے


یہ اس کے نقش کف پا ہیں اور لگتے ہیں
زمیں پہ جیسے کھلے ہوں گلاب مٹی کے


کسی کے واسطے ساحر چراغ تھے لیکن
ہوا کے ہاتھ پہ رکھے تھے خواب مٹی کے