تو اگر دل میں ایک بار آئے
تو اگر دل میں ایک بار آئے
عمر بھر کے لئے قرار آئے
آشیانہ ہی گلستاں میں نہیں
اب خزاں آئے یا بہار آئے
وہ نہ آئیں تو اے دم آخر
لب پہ نام ان کا بار بار آئے
موت نے آسرا دیا بھی تو کب
جب مصیبت کے دن گزار آئے
یاس کہتی ہے کچھ تمنا کچھ
کس کی باتوں پہ اعتبار آئے
یہ تو کچھ تلخ تھی مرے ساقی
اب جو آئے وہ خوش گوار آئے
اس کو تیرا پیامبر سمجھوں
موت اگر وقت انتظار آئے
عرشؔ وہ بے قراریاں نہ رہیں
دل کو اب کس طرح قرار آئے