ٹوٹتی جوانیاں

پبلک سروس کمیشن کی طرف سے سلیکشن لسٹ ، جو ایک مقامی نیوز پیپر میں مشتہر ہو اتھا، میں اپنا نام دیکھ کر میں بے حد خوش ہوا۔ کچھ دنوں کے بعدمیری پوسٹنگ شہر سے باہر وادی کے ایک دور افتادہ علاقے گلشن آباد کی گئی۔ ویسے تو میری خواہش شہر میں تھی لیکن میں پھر بھی مایوس نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ ایک نسبت سے اچھا ہی ہوا۔ اس طرح اپنی اس گلپوش وادی کے پورے حسن سے محظوظ بھی ہونگے اور دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے رہن سہن اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ دیہاتی لوگوں کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔ دیہات میں ایک دہائی گزارنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اگر سادگی ، ہمدردی ،بھائی چارہ ، خلوص اور شرم و حیا کو اسکے فطری صورت میں دیکھنا ہواور ان انسانی خصائل کا حقیقی مشاہدہ کرنا ہو تو دیہات میں جانا چاہیئے ۔ ویسے تو شہر میں بھی یہ چیزیں ناپید نہیں ہیں لیکن گاؤں کے مقابلے میں شہر کی فضا ہی ایسی ہے کہ یہاں مصنوعیت اور مسابقت کا کچھ زیادہ ہی دور دور ہ ہے۔
میری پوسٹنگ گلشن آباد کے پوشہ پورہ گاؤں کے سرکاری اسپتال میں ہوئی۔ رات کے آٹھ بجے میں اسپتال پہنچا ۔ میں چوکیدار سے چابی لے کر سیدھے کو ارٹر میں داخل ہوا۔ اپنا لو گیج وغیرہ کمرے میں رکھ کر پہلے میں نہا یا، کچھ دیر کے بعد چوکیدار نے کھانا وغیرہ تیار کیا اور کھانا کھانے کے بعد سوگیا۔ صبح سویرے جاگنے کے بعد میں نے کمروں کی صفائی کروائی ۔ قریباً دس بجے لوگوں کا ایک ہجوم اسپتال کے صحن میں نمودار ہوا۔ چوکیدار میرے کمرے میں حاضر ہو کر بولا ’’ صاحب ! گاؤں کے لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘ میں نے چوکیدار سے کہہ کر انہیں اسپتال کی پارک میں ٹھرایا ۔ میں کپڑے تبدیل کر کے میڈیسن کا بیگ ہاتھ میں اٹھا کر پارک میں آگیا۔پارک میں داخل ہوتے ہی گاؤں کی عورتوں نے گلابی پھولوں سے میرا استقبال کیا ۔تمام لوگو ں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے ۔ سب سے پہلے میرے سامنے دودھ پیش کیا گیا ۔ اس کے بعد ایک بڑا ٹوکر ا سامنے رکھا گیا ۔ جس میں مختلف قسم کے پھل ، سبزی یاں، انڈے وغیرہ رکھے ہوئے تھے ۔ مجھے اجنبیت کا قطعی احساس نہیں ہوا ۔ میں نے اپنا تعارف کرنے کے بعد تمام گاؤں والوں کا شکریہ ادا کیا۔ گاؤں کے ایک بزرگ ماسٹر نے اپنا تعارف کرنے کے بعد تمام لوگوں کا تعارف کرایا۔
دن گزرتے رہے ۔ میں دن بھر اخبارات اوررسائل پڑھنے میں مشغول رہتا تھا ۔ کبھی کبھا ر ہی کوئی مریض اسپتال میں آتا تھا۔ گاؤں کے لوگ کافی محنتی ہوتے ہیں ۔ وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا جسم چُست رہتا ہے ۔ ان کی خوراک تازہ سبزی یاں ، چاول اور پھل ہوتے ہیں اسی وجہ سے گاؤں میں رہنے والے لوگ کم ہی بیمار پڑتے ہیں۔ ایک صبح جب میں ابھی بستر پر ہی لیٹا ہوا تھا کہ باہر سے ہر طرف چیخ و پکار کی آواز یں آرہی تھیں۔ میں جلدی بستر سے اٹھا اور کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا ۔ اسپتا ل کے احاطے میں گاؤں کے تمام لوگ جمع تھے ۔ میں نے بہت ساری لڑکیوں کو رسیوں سے باندھا پایا۔ لڑکیاں پاگلوں کی طرح اپنے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کر رہی تھیں اور عجیب و غریب آواز میں ’’ دیکھوہماروا یہ گلستان جس کی ہم ہیں کلیاں‘‘ گارہی تھیں ۔ میں یہ وحشت ناک منظر دیکھ کر بد حواس ساہو گیا اور دوڑتے ہوئے ان لوگوں کے پاس پہنچا ’’یہ سب کیا ہیں‘‘ میں نے طیش میں آکر ایک نوجوان کو تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا ۔ اسکول ماسٹر جلدی سے سامنے کھڑا ہوا اور تیز لہجے میں بولا ۔
’’ ڈاکٹرصاحب ! پہلے آپ ان سب لڑکیوں کو بے ہوشی کا انجکشن لگائے ۔ بعد میں ہم بتادینگے ۔‘‘
ان لڑکیوں کا علاج کرنے میں پورا دن گزر گیا ۔ دن بھر میں سوچتا رہا کہ ان سیدھے سادھے اور ملنسار لوگوں کو کس آفت نے آج گھیر لیا اور یہ مصیبت ان پر کیوں ٹوٹ پڑی ۔ دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام لڑکیاں اپنی اصلی حالت میں آگئیں ۔ میں کوارٹر میں چلا گیا ۔ چائے وغیرہ پینے کے بعد میں بیڈ پر تھکان دور کرنے کے لئے لیٹنے ہی والا تھا کہ گاؤں کا بزرگ ماسٹر اپنی جوان سال بیٹی کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ میں اس دلدوز واقع کی وجوہات جاننے کے لئے ویسے ہی بے قرار تھا اس لئے میں ماسٹر سے جلدہی پوچھ بیٹھا ’’ ماسٹر جی! یہ کیا ماجرا ہے۔میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے۔ میں اس گاؤں میں ہمیشہ انسان دوستی ، بھائی چارہ ، امن و امان اور انسانیت ساز ماحول دیکھتا آیا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔؟
ماسٹر جی میری بات کاٹتے ہوئے روتے روتے کہنے لگا ۔
’’یہ میری جوان بیٹی ہے۔ یہ لگ بھگ پنتیس برس کی ہے جن دوسری لڑکیوں کا علاج کرنے میں دن بھر آپ مصروف رہے۔ وہ چالیس لڑکیاں بھی تقریباً اسی عمر کی ہیں۔‘‘
’’ لیکن ان سب لڑکیوں کی یہ حالت آج ہی کے دن ایک ساتھ کیسے ہوئی؟‘‘ میں نے ماسٹر جی کو کرسی پر بٹھا تے ہوئے پوچھا۔
میرے پوچھنے پر ماسٹر جی کی بیٹی زاد و قطار رونے لگی اور اپنے لوگوں کی درد بھری کہانی سنانے لگی۔
’’ ڈاکٹر صاحب آج’’یوم فتح کی تاریخ ہے۔ آج ہی کے دن ہمارا عظیم گلستان غیروں کی غلامی سے آزاد ہوا ہے۔ اسی دن ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ اسی یوم فتح کے دن ۔۔۔ بیس سالہ پہلے ، جب میری عمر سولہ برس تھی ہم لوگ یوم فتح کا جشن منارہے تھے، اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک مہینے تک میں گاؤں کی لڑکیوں کو یوم فتح کے دن پروگرام پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف رہی ۔ یوم فتح کی تقریب منانے کے سلسلے میں تمام گاؤں والے اسپتال کے وسیع گراونڈ میں موجود تھے۔ گلستان کے پاسبان اسٹیج پر بیٹھے ہوئیے تھے۔ فتح کا پرچم لہرایا گیا۔ ہرطرف خوشی کا سماں تھا ۔ میں گاؤں کی لڑکیوں کو فتح کے گیت پڑھا رہی تھی۔ لڑکیاں بھی ترنم کے ساتھ بلند آواز میں ’’ دیکھو ہمارا یہ گلستان جس کی ہم ہیں کلیاں‘‘ گارہی تھیں کہ اچانک زور دار زلزلہ آیا۔ بہت سارے گاؤں والے اور کچھ پاسبان اس زلزلے میں مرگئے۔ چار سو سناٹا چھا گیا۔ ہم یوم فتح کا جشن منارہے تھے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ زلزلہ کیسے ہوا۔ تمام پاسبان حواس باختہ ہوگئے ۔ جو لوگ ابھی تک اسٹیج پر ہماری امن پرستی کی قسمیں کھارہے تھے۔ اچانک انہیں ہم سب سے بڑے امن دشمن نظر آنے لگے۔ تمام بستی کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ۔ گلستان کے پاسبانوں نے سرعام لوٹ مار اور بربریت کا ننگا ناچ کھیلا اور نازک کلیوں کوظالم گلچیں نے مسَل کر رکھ دیا ۔‘‘ ماسٹر جی کی بیٹی اس انسانیت سوز سانحہ کا ذکر کرتے ہوئے بے ہوش ہوئی اور فرش پر گِر پڑی۔ ہم نے اسے بیڈ پر لیٹا دیا۔’’ ڈاکٹر صاحب ! یہ ہے اس سانحہ کی روداد۔‘‘ ماسٹر جی نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔’’ پچھلے بیس برسوں سے گاؤں میں کسی بھی لڑکی کی ڈولی نہیں اٹھی کیونکہ گلستان کے دلیر پاسبانوں نے ان کی عز ت لوٹ کر جو سیاہ دھبے ان کے پاک دامن پر لگا دئیے۔زمانے کی گردش نے ابھی تک وہ صاف نہیں کئے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 20 برسوں سے ظلم کا شکار ہوئی ہماری لڑکیاں یوم فتح کے دن اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں اور ہمیں مجبورا انہیں رسیوں سے جکڑنا پڑتا ہے۔‘‘ ماسٹر جی کی بیٹی بے ہوشی کے عالم میں ’’ دیکھ ہمارا گلستان جس کی ہم ہیں کلیاں ‘‘ گارہی تھیں ۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ آج محبت سے نہیں بلکہ نفرت کی وجہ سے یہ پڑھ رہی ہے اور اسکے دل میں انتقام کا آتش فشاں پک رہا ہے ؂
کیا کہوں کس طرح سر بازار
عصمتوں کے دیے بجھائے گئے
(ناصر کاظمی )