تمہاری زلف کے چرچے پریشانوں میں رہتے ہیں
تمہاری زلف کے چرچے پریشانوں میں رہتے ہیں
مری دیوانگی کے ذکر دیوانوں میں رہتے ہیں
نہیں پروائے ایماں کافران عشق کو ہرگز
انہیں کعبہ سے کیا مطلب جو بت خانوں میں رہتے ہیں
تلاش اس رشک لیلیٰ کی جو رہتی ہے ہمیں ہر دم
اسی سے قیس کے مانند وہ ویرانوں میں رہتے ہیں
میان محفل احباب ہے وہ شمع کی صورت
ہم اس سے لو لگائے اس کے پروانوں میں رہتے ہیں
فلک سے بڑھ کے رتبہ ہو نہ کیوں کر قصر جاناں کا
ملائک جس جگہ ادنیٰ سے دربانوں میں رہتے ہیں
عجب ہے نیک صحبت کی نہ ہوتا سیر انساں میں
مہذب بنتے ہیں حیوان جو انسانوں میں رہتے ہیں
نہ ہو مضمون عالی کیوں بھلا اشعار احقرؔ میں
سخن دانوں سے صحبت ہے زباں دانوں میں رہتے ہیں