تم سے کہہ دیں نہ بات کیوں دل کی
تم سے کہہ دیں نہ بات کیوں دل کی
ضبط غم اب ہے بات مشکل کی
یاد کشتی کا ڈوبنا آیا
بات کی جب کسی نے ساحل کی
صاحب غم نہ غم کا ذکر کرے
خوب رسمیں ہیں ان کی محفل کی
ہم نے خود آ کے زیر تیغ ستم
لاج رکھ لی ہے عزم قاتل کی
ضرب صیاد کی تو دیں سب داد
کس نے پروائے مرغ بسمل کی
موج دریا و رنگ لالہ و گل
کتنی شکلیں ہیں اک مرے دل کی
مجھ کو احساس آمد طوفاں
آپ کو فکر سیر ساحل کی
مستیٔ اہل کارواں توبہ
کچھ خبر راہ کی نہ منزل کی
ان سے کیا ہو معاملہ قاصدؔ
ہے الگ راہ حق و باطل کی