تم میرے ہو

میں جو واقعات بیان کرنا چاہتا ہوں وہ الٰہ آباد کی اس عمارت سے متعلق ہے جو لب جمنا واقع ہے اور ’’احسان منزل‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ واقعات ایسے ہیں جو آسانی سے سب کی سمجھ میں آسکتے ہیں اور میں سمجھانے کی فضول کوشش بھی نہیں کروں گا، کیونکہ دنیا میں بہیتری باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی توجیہ ناممکن ہواکرتی ہے۔ اسکے علاوہ ہر موقع پر نظریۂ تعلیل کے رو سے بحث کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی نگاہ سطحی ہے اور وہ صغریٰ و کبریٰ کی بندشوں سے آزاد ہونا نہیں چاہتا ہے اور جو لوگ ہر بات کی تاویل کرنے لگتے ہیں اُن کو میں کم نظر اور تنگ خیال سمجھتا ہوں۔


سب سے پہلے یہ بتادینا ضروری ہے کہ میرے دماغ میں کوئی فتور نہیں ہے اور نہ میں واہمہ پرست ہوں جیسا کہ اکثر ناظرین کو شبہہ پیدا ہوجائے گا۔ میں نفسیات کا ماہر سمجھا جاتا ہوں۔ میں نے قوائے انسانی اور ان کے افعال کا پورا مطالعہ کیا ہے۔ میں فلسفہ اور منطق کی تکمیل کرچکاہوں، یہی نہیں بلکہ سیکڑوں کو ان علوم میں سبق دے چکاہوں یعنی مدتوں سے پروفیسری کر رہا ہوں۔ البتہ میں کبھی صرف علمی اصطلاحوں میں نہیں الجھا، میں جانتا ہوں کہ انسان کا علم محدود ہونے کے علاوہ اضافی اور اعتباری ہے۔ حقیقت عقل کے ذریعے معلوم نہیں کی جاسکتی ہے، صرف دل کے توسط سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ،


من زقرآں برگزیدم مغزرا
استخواں پیش سگاں اندا ختم


میں نے ’’احسان منزل‘‘ اس لیے کرائے پر لی تھی کہ یہ عمارت ایسی جگہ تھی جہاں انسان کسی بلا کسی کی مداخلت کے سکون کے ساتھ جو چاہے کرسکتاہے، اور میں ایسی ہی پرسکون جگہ کی ضرورت محسوس کر رہاتھا کیونکہ مجھے ڈاکٹری کی ڈگری لینے کے لیے اپنی کتاب تیار کرنی تھی۔


مرزا احسان علی صاحب جن کا یہ مکان تھا الٰہ آباد کے ایک سربرآوردہ رئیس اور ممتاز وکیل تھے۔ وہ قرب و جوار میں آزاد خیال مشہور تھے، ان کی آزاد خیالی کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی اکلوتی لڑکی کو اُردو، فارسی اور عربی کے علاوہ انٹرنس تک انگریزی تعلیم بھی دلوائی تھی۔ الٰہ آباد میں گھر گھر اسی کا چرچا تھا، لڑکی کی شادی ہوگئی تھی۔ لیکن قدرت کاکارخانہ ہی نرالا ہوتا ہے۔ شادی کو پانچ برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ بیچاری نہ جانے کس مرض میں مبتلا ہوکر دنیا سے چل بسی۔ والدین کے لیے یہ ایسا دھکا نہ تھا جس کی وہ تاب لاسکتی، ان کی دنیا تاریک ہوگئی۔ ’’احسان منزل‘‘ جوواقعی فردوس کاایک نمونہ تھی ان کے لیے دوزخ ہوگئی، انسان سکون حاصل کرنے کے لیے نئی نئی تدبیریں سوچتاہے۔ چنانچہ احسان علی صاحب مع اپنی بیوی کے حج کو چلے گئے جس کا اس سے پیشتر اُن کوکبھی خیال بھی نہ گزرا ہوگا۔


’’احسان منزل‘‘ یوں تو ڈیڑھ سو روپیے ماہوار سے کم کی عمارت نہ تھی لیکن احسان علی صاحب کی تاکید تھی کہ اُس کے صرف پچاس روپیہ کرایہ لیے جائیں اور وہ بھی یتیموں میں تقسیم کردیے جائیں۔ مکان نہایت وسیع اور شاندار تھا۔ اس کے چار کمروں میں احسان علی صاحب کے سارے سامان مقفل تھے، اس پر بھی مکان میں اتنی گنجایش تھی کہ ایک پورا خاندان آرام سے رہ سکتا تھا۔


’’احسان منزل‘‘ میں مجھے آئے ہوئے پانچ چھ روز ہوگئے تھے، اس دوران میں میں نے اپنے وقت کا بیشتر حصہ ایک ہی کمرے میں صرف کیا تھا، بلکہ یوں کہیے کہ ابھی تک دوسرے کمروں کی وضع و قطع پر غو رکرنے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ شام کو کالج سے واپس آیا، میرے ساتھ دوتین احباب بھی تھے، میں نے خدمت گار سے کہا کہ آج چائے دوسرے کمرے میں پی جائے گی۔ یہ کمرہ اُس کمرے کی پشت پر تھا جس میں میں رہا کرتاتھا۔


خدمت گار نے چائے لاکر میز پر لگادی اور ہم لوگ چائے کے ساتھ فلسفہ کے چنداہم مسائل بھی حل کرنے لگے، اتنے میں میرے ایک دوست نے ایک گوشے کی طرف اشارہ کرکے پوچھاکہ ’’یہ کس کی تصویر ہے؟‘‘ میری نگاہیں بھی اٹھ گئیں۔ دیکھا تو ایک بیس برس کی عورت وقارنسائیت کامجسمہ بنی ہوئی بیٹھی ہے، اس کی آنکھوں میں ایک مسحور کرنے والی متانت تھی۔ اس کے تیور بتلارہے تھے کہ یہ عورت دنیا میں صرف مٹنے اور مٹانے آئی تھی۔ اب تک حسن کے مفہوم سے میں ناآشنا تھا۔ میں کسی عورت کی سحر آفرینیوں سے مغلوب نہیں ہوا تھا، لیکن اس تصویر میں نہ جانے کون سی قوت تھی کہ اپنے احباب کے چلے جانے کے بعد گھنٹوں اس کو دیکھتا رہا اور وہاں سے کسی طرح ہٹنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ احسان علی صاحب کی لڑکی کی تصویر ہے جس کی جدائی کے صدمہ نے ان کو ترک وطن پرمجبور کیا۔


دوسرے دن میں آٹھ بجے رات تک باہر رہا، موسم سرماکاآغاز تھا۔ چاندنی رات تھی، لوٹتے وقت ’’احسان منزل‘‘ تک تو مجھے اپنے گردوپیش کی کچھ خبر نہ تھی۔ میں بیرگسان کے مسئلہ ’’عقل و بداہت‘‘ میں محو تھا جس نے دنیائے فلسفہ میں ایک نیا موضوع پیدا کر رکھا ہے، مگر احاطہ میں داخل ہوتے ہی ایک ناقابل بیان اندرونی تحریک سے میری نظر باغ کے اُس گوشے کی طرف اٹھ گئی جو مکان کے داہنے جانب تھا اور جہاں آمد و رفت بہت کم ہوتی تھی۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی جب میں نے دیکھا کہ ایک عورت ساری میں ملبوس کھڑی ہے اور اس کے دونوں ہاتھ میری طرف بڑھے ہوئے ہیں۔ میں جلدی سے برآمدے میں اسی جانب آگیا تاکہ اس کو قریب سے دیکھ سکوں۔ کیا بتاؤں میں نے کیا دیکھااور اگر بتاؤں تو اس کو مانتا کون کافر ہے۔ میں اس عورت کوایک نگاہ میں پہچان گیا۔ احسان علی صاحب کی لڑکی جس کی تصویر میں کل میں کھو گیا تھا۔ آج اپنے خاکی پیکر میں میرے سامنے تھی۔ اس میں اور اس کی تصویر میں سرمو فرق نہیں تھا۔ وہی سن وہی صورت، وہی رعنائی، گویا اتنے زمانے کے امتداد کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔


میرے پڑھنے والے اس کو التباس حواس کہہ کر ٹال دیں گے، لیکن مجھ کو اپنے حواس کا بہتر علم ہے اور میں اپنے حواس پر پورا اعتماد رکھتاہوں۔ میں اس منظر سے گھبرایا نہیں، مجھے محسوس ہونے لگا کہ قریب اور دور کی ہر چیز پرایک نیااور انوکھا رنگ پھر گیا ہے۔ مگر میں یہ نہ سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہاتھ کس کی طرف بڑھائے ہوئے ہے اور کیوں۔ یہ چاند کی دیوی زیر لب کچھ کہتی بھی جاتی تھی جس کو میں صاف سن نہ سکا۔ کچھ دیر تک تو برآمدے میں کھڑا دیکھتا رہا۔ آخر کار ضبط نہ کرسکا اور نیچے اُتر کر اس کی طرف بڑھا۔ وہ دور ہٹ گئی۔ میں آگے بڑھتا گیا اور وہ پیچھے ہٹتی گئی، یہاں تک کہ وہ مکان کے عقب میں ہوگئی اور اب جو میں نے اُدھر آکر دیکھا تو اس کا کہیں وجود نہ تھا۔ پھر میں نے ’’احسان منزل‘‘ کے چاروں طرف گشت لگایا مگر مجھے وہ عورت نہ دکھلائی دی۔ میں حیران تھا، تاہم مجھے یقین تھا کہ جو کچھ میں نے دیکھا وہ کوئی خواب و واہمہ نہ تھا بلکہ اس کے اندر کوئی نہ کوئی اصلیت پوشیدہ تھی۔ تقریباً ایک گھنٹہ سرگرداں رہنے کے بعد میں اپنے کمرے میں یہ کہتا ہوا چلا آیا کہ ’’ہنوز چشمش نگراں است کہ ملکش بادگراں ہست۔‘‘


خدمت گار کمرے میں میرا انتظار کر رہا تھا، میں نے فوراً کھانا لانے کا حکم دیا۔ کھانے کے بعد میں نے خدمت گار کو خلاف معمول وقت سے پہلے رخصت کردیا۔ چلتے وقت اس نے کہا ’’حضور! مجھے ایک بات کہنی ہے، اکثر باغ میں اور کبھی کبھی مکان کے اندر بھی کسی کی آہٹ ملتی ہے۔ اور بعض دفعہ تو درختوں کے سایہ میں مجھے کوئی چلتاپھرتا نظر آتا ہے۔ نہ جانے کیا بلاہے۔ بہتر یہ ہے کہ حضور اس مکان کو چھوڑ دیں، مجھے تو بڑا ڈر معلوم ہوتا ہے۔‘‘


میں نے مسکراکر کہا’’یہ سب تمہارا خیال ہے اس وہم کو اپنے دل سے دور کردو، ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘ نوکر کو تو میں نے جاہل اور بیوقوف بنادیا مگر میں خود کیا تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ نوکر نے چند جملے کہہ کر میرے یقین کو اور بھی پختہ کردیا تھا۔ یعنی جو کچھ میں نے دیکھا تھا وہ میری نظر کا دھوکا نہ تھا۔


ساڑھے دس بج چکے تھے آج مطالعہ میں میرا جی نہیں لگتا تھا۔ میں گزشتہ واقعہ پر تبصرہ کر رہا تھا اور کسی طرح کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ مجھے رہ رہ کر غیرمانوس قدموں کی آہٹ محسوس ہوتی تھی۔ کئی بار اُٹھ کر کمرے سے باہر گیا مگر کچھ نظر نہ آیا۔ آج مجھے کچھ خلش سی تھی اور میرا دل کہہ رہا تھا کہ کوئی نئی بات ہونے والی ہے۔


گھڑی نے گیارہ بجائے۔ یکایک تصویر والے کمرے میں کچھ گرنے کی آواز آئی۔ میں نے جلدی سے اپنا پستول لیا اور کمرے کا دروازہ کھول کر برقی قمقمہ روشن کردیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک نخیف الجثہ شخص کھدر کی میلی دھوتی اور کرتہ پہنے ہوئے سامنے کھڑا ہے، وہ مجھے اور میرے پستول کو خاموشی کے ساتھ عجیب بے معنی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس دوران میں مجھے پورا موقع مل گیا کہ اُسے غور سے دیکھ سکوں۔ یہ آدمی صورت سے مریض معلوم ہوتا تھا اور آنکھوں سے دیوانہ۔ اس کے جسم میں ہڈیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ کوئی آفت رسیدہ شخص ہے اور کسی کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ یہ سوچ کر میں نے پستول جیب میں رکھ لیا اور اُس سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘


’’چوریا ڈاکو کے سوا جو سمجھیے۔‘‘ اس نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔


’’لیکن باہر کے کمرے کا دروازہ تو بند تھا تم یہاں کیسے آئے؟‘‘


’’کھڑکی ذرا سی جنبش سے کھل جاتی ہے۔ یہ میں جانتا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔


’’یہاں آئے کس غرض سے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔


اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور تصویر کی طرف اشارہ کرکے ’’یہ مجھ سے نہ پوچھیے اس سے پوچھیے۔‘‘


یہ کہہ کر وہ بے ساختہ رونے لگا، مجھے اُلجھن ہونے لگی۔ میں نے پھر دریافت کیا ’’تم کو اس سے کیا تعلق ہے؟‘‘


’’قبل اس کے کہ میں آپ کو اپنی پوری داستان سناؤں آپ میرے ہمدرد بننے کا وعدہ کیجیے، آپ فلسفی سمجھے جاتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ میرے تمسخر نہ کریں اور اس سے بڑھ کر میرے جذبات کی توہین نہیں ہوسکتی۔ میں آپ کی ہنسی کی تاب نہ لاسکوں گا، میں ایک مٹا ہوا آدمی ہوں۔ میرے پاس سوا اپنے جذبات کے اور کچھ نہیں ہے جس پر میں ناز کرسکوں، یہی میری دنیا ہے، یہی میری دولت ہے۔‘‘


وہ ایک سانس میں اتنا کہہ گیا اور اب اس کا دم پھولنے لگا، وہ کم زور تھا، اس کے لب و لہجہ سے ایک طنز آمیز سنجیدگی ٹپک رہی تھی۔ مجھے اسکے ساتھ خود ہی ہمدردی ہوگئی تھی، میں نے خلوص دل سے وعدہ کیا کہ اس کے جذبات کااحترام کروں گا، وہ بدستور رو رہا تھا۔ اس کے جسم میں لرزہ تھا، نہ جانے کیوں بار بار میرے ذہن میں یہ خیال آرہا تھا کہ یہ شخص گھڑیوں کا مہمان ہے۔ میں کسی جدید اکتشاف کامنتظر تھا، لیکن اس کا رونا کسی طرح بند نہ ہوتا تھا، آنکھیں لال ہو رہی تھیں، دم الٹتا ہوا معلوم ہوتا تھا، یہ وہ سماں تھا کہ مجھ جیسے بطی الحس آدمی سے بھی نہ رہا گیا، میں نے اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا ’’آخر کچھ بتاؤ تو اس طرح سے رو رو کر کیوں جان کھو رہے ہو؟‘‘ اس کے جسم کو چھونے سے معلوم ہوا کہ اس کو شدید تپ چڑھی ہوئی ہے، اور وہ اسی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ میں نے کہا ’’تم کو بخار چڑھا ہوا ہے اور تم کوئی گرم کپڑا نہیں پہنے ہو، یہیں بیٹھے رہو میں اپنا کمبل لیتا آؤں۔‘‘


’’انصاری صاحب!‘‘ اس نے مجھے مخاطب کیا۔


’’تم کو میرا نام کس نے بتایا؟‘‘ میں نے بات کاٹ کر تعجب سے دریافت کیا۔


’’یہیں کسی سے معلوم ہوا کہ اس مکان میں جہاں میرے نفس کی تہذیب و تربیت ہوئی ہے پروفیسر انصاری صاحب رہتے ہیں۔ ہاں تو میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ فضول زحمتیں نہ گوارا کیجیے، میں کرتے اور دھوتی کے سوا اپنے بدن پر کوئی اور کپڑا نہیں ڈالتا، مدت سے یوں ہی بسر کر رہا ہوں۔ میں نے سعی بسیار کے بعد اپنے کو اس طرز معاشرت کا خوگر بنایا ہے اور مجھے اسی میں سکون ملتا ہے۔ البتہ اگر ایک بوتل شراب مل جائے تو میں اپنی سرگزشت بیان کرنے کے قابل ہوجاؤں۔‘‘


مجھے اس کی حالت پر رحم آنے لگا۔ میں نے نوکر کو شراب لانے کے لیے فوراً اسٹیشن بھیجا اور خود چائے بنانے میں مصروف ہوگیا۔ اس نے مجھے روکنا چاہا مگر میں نے تیور چڑھاکر کہا ’’تم میرے مکان میں بلا اجازت داخل ہوگئے، اس کی سزا میں تم کو کمبل بھی اڑھاؤں گا وار چائے بھی پلاؤں گا۔‘‘ وہ پھر کچھ نہ بولا اور اپنی آنسو بھری آنکھوں سے تصویر کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر مجنونانہ انداز سے اٹھا اور تصویر کو اتار لایا، اب اس کی وہ حالت تھی جسے صرف ہذیان یا خفقان کہہ سکتے ہیں۔ اُس نے تصویر کو سینہ سے اس زور سے لپٹایا کہ گویا اپنی پسلیوں کو توڑ کر اس کو اندر رکھ لینا چاہتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اس کے مرض کی اصلیت کیا ہے، مگر تفصیل سے ناواقف تھا۔ اسکی مضطربانہ حرکتوں سے خود بے قابو ہوچلاتھا، چائے تیار ہوچکی تھی۔ میں نے اس کو ایک پیالی دی اور کہا ذراضبط سے کام لو، اس طرح بے قابو ہونا شیوۂ مردانگی سے دور ہے۔‘‘


میرے ان جملوں نے اس کو بدمزہ کردیا، اس نے تصویر سامنے رکھ دی اور ایک مصنوعی مگر نہایت تلخ مسکراہٹ سے یہ شعر پڑھا،


’’حریفِ کاوشِ مژگانِ خونریزش نۂ زاہد
بدست آورگِ جانے و نشتر راتما شاکن‘‘


پھر کہنے لگا ’’انصاری صاحب! میں جانتا تھا کہ آپ مجھے مغلوب الاعصاب سمجھ کر میری ہنسی اڑائیں گے۔ آپ نفسیات کے ماہر ہیں اس لیے ناصح کا کام شاید آپ کو زیب دیتا ہے، لیکن میری صلاح یہ ہے کہ کبھی کبھی آپ فلسفہ سے بے نیاز ہوکر زندگی کے راز پر غور کیا کیجیے،


’’اے آنکہ دائم عاقلی دیوانہ یکدم نیز شو‘‘


عقل تو انسان کے لیے ایک کھلونے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ اس میں صلاحیت ہی نہیں کہ زندگی کے سنجیدہ اور اہم مسائل کو سمجھ سکے، ذرا جذبات کی دنیا میں آئیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے، اس وقت نہ صرف مظاہر و حوادث آپ کی سمجھ میں آجائیں گے بلکہ آپ اس طلسم کدہ سے واقف ہوجائیں گے جس کو افلاطون ’’عالمِ مثال‘‘ کہتا ہے۔


آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے بھی فلسفہ میں ایم، اے کیا ہے اور اس کے بعد علمی دنیا میں وہ وقار حاصل کیا جو ہر شخص کی قسمت میں نہیں آتا۔ بڑے بڑے لوگوں میں اپنی جودت طبع اور زبان و قلم کے زور سے ممتاز رہ چکا ہوں، میں آپ کو بتادیتا اور آپ تسلیم کرلیتے کہ زندگی کا اصل راز کیا ہے اور شوگۂ مردانگی کس کو کہتے ہیں، لیکن اب نہ وہ دل و دماغ رہا نہ وہ حوصلہ،


مانچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الاحدیث دوست کہ تکرار میکنم


آپ میرا نام جاننے کے لیے بیتاب ہیں؟ شاید آپ بھی مجھے جانتے ہوں۔ میرا نام جمیل ہے جس نے اردو صحافت میں ایک نئی روح پھونکی، جو افسانہ نویسی میں آپ اپنی نظیر ہے، جو فن تنقید کا پیشوا مانا جاتا ہے۔‘‘


’’کیا تم وہی جمیل ہو جو احسان علی صاحب کے اخبار ’’نقیب الملت‘‘ کا ایڈیٹر تھا اور جو انگریزی زبان کے بہترین مقرروں میں گنا جاتا ہے؟‘‘


’’جی ہاں وہی جمیل!‘‘ اُس نے بے پروائی کے ساتھ جواب دیا، ’’آپ کو میرا وہ خطاب نہیں معلوم جس پر میری خاک کے ذروں کو بھی ناز رہے گا،، یعنی (تصویر کی طرف اشارہ کرکے ) سائرہ کا مبتلا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تصویر پھر اٹھالی۔ اور پاگلوں کی طرح اس کو چوم کر سینہ سے لگالیا۔ میں ششدر تھا اس لیے کہ جمیل کا نام سن کر مرعوب ہوگیا تھا، جس نے آج تک مباحثوں اور مناظروں میں کسی سے شکست نہیں کھائی، مجھے یقین تھا کہ وہ اشعار پڑھ پڑھ کر مجھ کو احمق بنادے گا اس وقت اس کی ’’حدیث دوست‘‘ کے سامنے کوئی منطق ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں ہے، اس پر بھی اس کے جوش تکلم کا یہ عالم تھا کہ کم از کم میں تو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ میں خاموش اس کی زندگی کے حالات سننے کا منتظر تھا۔ اس نے چائے ختم کی اور مجھ سے ایک سگریٹ لے کر پینے لگا۔ اتنے میں شراب بھی آگئی۔ میں نے شیشہ کے گلاس میں ڈھال کر اس کے سامنے رکھ دی، اس نے مجھ سے کہا ’’میں شرابی نہیں ہوں۔ لیکن کبھی کبھی اپنی قوتوں کو اکٹھا کرنے کے لیے پی لیتا ہوں، لوگ خود فراموشی کے لیے شراب پیتے ہیں اور میں اپنے کو یاد کرنے کے لیے۔ اگر آج نہ پیوں تو آپ مجھ سے کچھ نہ سن سکیں گے۔


جمیل کے آخری جملوں نے مجھ پر گہرا اثر کیا اس نے جلدی سے پورا گلاس خالی کردیا اور کرتے کے دامن سے منھ پوچھ کر اپنا الم نامہ بیان کرنا شروع کردیا۔


’’تصویر کی طرف اشارہ کرکے ) اب تو غالباً آپ اس قدر سمجھ گئے ہوں گے کہ’’یہ احسان علی صاحب کی لڑکی سائرہ ہے، یعنی میری ’’معبود‘‘۔ لفظ ’’معبود‘‘ سے آپ مجھے کور ذوق اور یا وہ گو تصور کریں گے۔ لیکن یقین مانیے میں اس ہستی کو کسی اور لقب سے یاد ہی نہیں کرسکتا۔ وہ میری بیوی نہ تھی اور نہ میری کوئی غرض اس سے وابستہ تھی، تاہم میں سائرہ کا پرستار تھا۔ اس کے سامنے مجھ پر وہ کیفیت طاری ہوجاتی تھی جسے ’’حیرانی‘‘ یا ’’انفعالیت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس کو دیکھ کر میرے جذبات عبودیت برانگیختہ ہوجاتے تھے، میرے اندر ایک ہلچل مچ جاتی تھی اور بے ساختہ جی چاہتا تھا کہ سربسجود ہوجاؤ، پھر بتائیے کہ سائرہ کو معبود نہ کہوں تو کیا کہوں؟‘‘


جمیل دم لینے کے لیے رک گیا، میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہوں یا کروں میں تو اسکی حالت کو ایک قسم کا عصبی دورہ سمجھ رہا تھا، اگر اپنی رائے اس پر ظاہر کرتا تو وہ نہایت آسانی سے ثابت کردیتا کہ اس سے زیادہ سمجھنے کی مجھ میں قابلیت ہی نہیں۔ اس ڈر سے میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ جمیل نے پھر سلسلہ شروع کیا۔


احسان علی صاحب میرے چچا ہیں، میرے والد بیس برس کی عمر میں گھر سے خفاہوکر حیدرآباد چلے گئے تھے اور چونکہ ارادہ کے پکے تھے انھوں نے پھر کبھی وطن کا رخ نہیں کیا، وہ حیدرآباد میں ایک ممتاز عہدہ پر مامور ہوگئے اور وہیں شادی کرکے بس گئے۔ میں وہیں پیدا ہوا وار انٹرنس تک تعلیم پانے کے بعد علی گڑھ بھیج دیا گیا، وہاں میں ہمیشہ ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا، فلسفہ، سیاسیات اور ادبیات میں میرے استاد مجھ سے رائے لیا کرتے تھے۔ ہندوستان کے انگریزی اور اردو رسائل میں مضامین لکھ لکھ کر میں نے ایام طالب علمی ہی میں کافی نمود حاصل کرلی تھی۔ ایم، اے کرنے کے بعد ایک مقتدر روزنامہ کی ادارت مجھے مل گئی جس کے لیے ڈیڑھ سو روپے ماہوار مجھے دیے جاتے تھے، والد چاہتے تھے کہ مجھے بھی کسی بلند عہدے پر مامور کرادیں، لیکن میرے فطری میلان سے مجبور ہوگئے۔ اخبار کی ایڈیٹری نے میری شہرت کو پر لگادیے اور دنیائے صحافت میں میں صائب الرائے مان لیا گیا۔ فطرت اپنا کام پورا کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈ لیا کرتی ہے۔ میری ماں مجھے دس برس کا چھوڑ کر مرگئی تھی۔ اخبار کی ایڈیٹری کرتے ہوئے سال ہی بھر ہوئے تھے کہ والد بیمار پڑے اور مجھے چھٹی لے کر حیدرآباد جانا پڑا، مرض رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں معلوم ہوگیا کہ وہ وقت آگیا ہے جس کی بابت کہا جاتا ہے کہ ٹالے نہیں ٹلتا، اطبا ہاتھ پاؤں مارتے رہ گئے اور والد جینے کی امید موہوم لیے ہوئے اس دنیا سے چل بسے۔ احسان علی صاحب اور دیگر اعزہ تعزیت کے لیے پہنچے، اور یہیں سے میری زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔


احسان علی صاحب نے والد کی وفات کے کچھ دنوں بعد سخت اصرار کیا کہ اب میں حیدرآباد چھوڑدوں اور ان کے ساتھ رہوں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ میں کہیں ملازمت کروں، انھوں نے نہایت پیار کے لہجے میں کہا ’’خدا کا دیا میرے پاس بہت کچھ ہے، تم اور سائرہ بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرسکتے ہو۔ کوئی وجہ نہیں کہ کسب معاش کے لیے دربدر پھرتے رہو۔ تمکو ’’نقیب الملت‘‘ کے ہوتے ہوئے کسی اور اخبار کی ایڈیٹری کرنے سے یوں بھی عار ہونا چاہیے۔ الٰہ آباد چلو اور وہیں بیٹھے بیٹھے کتابیں بھی تصنیف کرو اور ’’نقیب الملت‘‘ کو بھی اپنے ہاتھ میں لو۔‘‘


ان کے ایک ایک لفظ سے خلوص نیت کا پتہ چلتا تھا اور یہ ایسا جادو ہوتا ہے جو آن کی آن میں قلب ماہیت کرسکتا ہے۔ ظاہر میں کوئی معقول وجہ نہ تھی کہ ملازمت ترک کرکے احسان علی صاحب کے ساتھ ہولیتا۔ لیکن انھوں نے کچھ اس انداز سے مجھے یہ سب کچھ کہا کہ میرے حیدرآبادی اقربا کی کچھ نہ چلنے پائی۔ اور میں ازسرنو زندگی شروع کرنے کے لیے الٰہ آباد جانے پر آمادہ ہوگیا۔‘‘


جمیل کا ہیجان آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا، اس کی سانس گھٹنے لگی جس کی وجہ میرے خیال میں یہ تھی کہ وہ ایک ہی لمحہ میں اپنی تباہی کی ساری داستان بیان کردینا چاہتا تھا لیکن یہ ممکن نہ تھا، اسلیے کہ اس کے دل میں ایک تلاطم تھا۔ اسکی ایک ایک رگ میں قیامت برپا تھی۔ وہ جس قدر جلد مجھے اپنی زندگی کے حالات سے آگاہ کرناچاہتا تھا اسی قدر اس کو دیر ہو رہی تھی اور اس کاافسانہ طویل ہوتا جاتا تھا۔ جمیل تھوڑی دیر ادھر اُدھر وحشیانہ نگاہوں سے دیکھتا رہا اُس کے بعد ایک گلاس شراب اور پی کر سلسلہ شروع کیا،


’’احسان علی صاحب کو واقعی مجھ سے بے انتہا محبت تھی اور گھر کے دوسرے افراد بھی مجھے وقعت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، الٰہ آباد میں میری قابلیت اور طباعی پہلے سے مشہور تھی، اہل مذاق مجھے غائبانہ طور پر جانتے تھے۔ اب جو میں یہاں کے سربرآوردہ لوگوں سے ملا تو ان کے حلقہ میں میری شخصیت کا سکہ بیٹھ گیا۔ مختصر یہ کہ ہر شخص مجھ سے مرعوب تھا، لیکن میں خود جس ہستی سے مرعوب ہوگیا وہ سائرہ تھی۔ (تصویر کومخاطب کرکے ) آہ! سائرہ!


’’تو جلوہ دادی و مدہوش کردہ مارا‘‘


یہی سائرہ جس کو اس وقت آپ میری گو دمیں دیکھ رہے ہیں، اب سائرہ میری ہے۔‘‘


آخری جملہ اس لہجہ میں کہا گیا تھا جو پتھر کو موم کرسکتا تھا۔ میں خود متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ میرا دل دُکھ گیا۔ میں نے جمیل کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’اپنے ساتھ اتنا ظلم نہ کرو، تم نہ جانے دُنیا میں کیا ہوتے۔ مگر دیکھو تو اپنے کو کیا کرڈالا۔۔۔‘‘


’’نصیحت کی ضرورت نہیں، مجھ کو مخلصانہ ہمدردی کی ضرورت ہے۔ انصاری صاحب! اگر آپ میری داستان سے بے کیف ہو رہے ہیں تو میں یہیں ختم کرکے آپ سے معذرت مانگ لوں۔ لیکن اب مجھے صلاح نیک سے ممنون کرنے کی کوشش نہ کیجیے، میں متحمل نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس نے چڑھ کر جواب دیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب وہ اپنی بربادی کو ’’خوش آمدید‘‘ کہہ رہا ہے۔ میں نے کہا ’’معاف کرو، مجھ سے غلطی ہوئی، تم اپنے حالات سناؤ، مجھے تم سے لگاؤ ہوگیا ہے۔‘‘


اس نے اپنے تیور درست کرکے پھر شروع کیا۔


’’یوں تو حیدرآباد میں احسان علی صاحب کے منھ سے سائرہ کا نام سنتے ہی میرے کانوں نے ایسا محسوس کیا تھا کہ فضا میں ایک لطیف ارتعاش پیدا ہوگیا ہے مگر اس کو میں نے اپنی لطافت مذاق پر محمول کیا تھا، کیونکہ سائرہ فی الحقیقت ہے بھی نہایت لطیف نام۔ میں نے اپنے مذاق کے مطابق سائرہ کا ایک تصور قائم کرلیا تھا، لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ میرے تصور کواصلیت سے کوئی نسبت نہ تھی۔ یہ کہنا بیکار ہے کہ سائرہ حسین و جمیل تھی۔ ممکن ہے جس کو میں حسین و جمیل کہوں وہ آپ کی نگاہ میں کریہہ المنظر اور بدہیئت ہو، اتنا ضرور کہوں گا کہ میرے نقطۂ نظر سے اُس میں ’’کاروبار دلداری‘‘ کے تمام ’’نکات‘‘ موجود تھے۔ اس میں وہ ’’آن‘‘ تھی جس کو حافظؔ ’’عین دلبری‘‘ سمجھتے ہیں۔ میں نے اب تک عورت اور محبت کے موضوع پر کبھی غور نہیں کیا تھا اور اس لحاظ سے اپنے کو خوش نصیب تصور کرتا تھا، مجھے یقین تھا کہ محبت جیسی غیرواضح اور مہمل چیز کبھی مجھ پر قابو نہیں پاسکتی۔ میں مطمئن تھا، لیکن آنے والا وقت مجھ پر ہنستا رہا ہوگا۔


’’سائرہ سے ملنے کے بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ میں رفتہ رفتہ محسوس کرنے لگا کہ سائرہ غیرمعمولی ہستی ہے اور صرف مجھ پر حکومت کرنے آئی ہے۔ اس شکست کا مجھ کو کبھی گمان بھی نہ تھا۔‘‘


سائرہ کی شادی میرے آنے سے چھ ماہ پہلے ہوچکی تھی۔ ذرا میری بے بسی پر غور کیجیے، مجھے اپنی محبت پیش کرنے کا بھی کوئی حق نہ تھا۔ وہ دوسرے کے ساتھ پیمان رفاقت باندھ چکی تھی، اس کی شادی ڈاکٹر ابوظفرؔ کے ساتھ ہوئی تھی جو یہاں کے مشہور ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر کی دنیا ’’گوشت و پوشت‘‘ سے آگے نہیں بڑھتی۔ ابوظفر کو سائرہ کے ساتھ دلچسپی ضرور تھی۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ وہ اس کی توقعات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، سائرہ لطیف ترین جذبات کی عورت تھی اور ابوظفر ہر اس چیز کو بے بنیاد اور لایعنی سمجھتے جس کو وہ اپنی جراحی کے ذریعہ سے مشاہدہ میں نہ لاسکتے ہوں۔ دونوں کی طبیعتوں میں خاک اور عالم پاک کی نسبت تھی، ان کی زندگی ایک معاملہ ہوکر رہ گئی تھی جس کو دونوں نہایت حسن و خوبی سے نباہ رہے تھے۔ میں آیا تو سائرہ نے ایسا سمجھا کہ اس کے لیے کوئی فرشتہ نازل ہوگیا ہے جو اس کی زندگی کو لطافت سے معمور کردے گا۔ آہ! اس کو کیا خبر تھی کہ جس کو وہ فرشتۂ رحمت سمجھ رہی ہے وہ اس کے حق میں ’’تباہی کا شیطان‘‘ ثابت ہونے والا ہے۔‘‘


جمیل کے ہونٹ کانپنے لگے اور وہ تھوڑی دیر تک اس قابل نہ تھا کہ سلسلہ کو جاری رکھ سکے، کچھ تو شراب نے اور کچھ جذبات کے ابھار نے اس کے زرد چہرہ کو کسی قدر سرخ بنادیا تھا۔ چند لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد اس نے مجھ سے ایک اور سگریٹ مانگا اور اپنے حواس کو ازسرنو مجتمع کرکے کہنا شروع کیا،


’’آپ کے لیے شاید میرے افسانہ میں کوئی دلچسپی نہ ہو، ممکن ہے آپ مجھ کو بدکردار کہیں اس لیے کہ میں نے ایک ایسی عورت سے محبت کی جو غیر کی بیوی تھی لیکن آپ اس کو ذہن نشین کرلیجیے کہ محبت سوچ سمجھ کر نہیں کی جاتی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ’’محبت کی نہیں جاتی ہوجاتی ہے‘‘۔ محبت اگر دوشیزہ سے ہوسکتی ہے تو بیاہی عورت سے بھی ہوسکتی ہے۔ بہرحال سائرہ سے مجھ کو محبت ہوگئی اور یہ محبت روز افزوں ترقی کرنے لگی۔ میں نے اس کو مدتوں حقیقت حالت سے بے خبر رکھا، مگر پرستش کی نگاہیں چھپ نہیں سکتیں، اُس کو بھی میرے کیفیات قلب کا پتہ چل گیا اور وہ متفکر سی رہنے لگی۔ ابھی تک میں نے اپنے منھ سے کچھ نہیں کہا تھا اور نہ اس نے کچھ کہا تھا لیکن نگاہوں نے تبادلۂ خیلات کرلیا تھا، گویا،


’’پرستش تھی اور پائے سخن درمیاں نہ تھا‘‘


ایک سال اسی طرح گزرگیا اور اپنی فرصت کا بیشتر حصہ میں اسی کی صحبت میں گزارا کرتا، اس کا علمی اور ادبی ذوق میرے لیے بہانہ ہوگیا تھا۔ سائرہ کی محبت میری جولانی طبع کے لیے تازیانہ ہوگئی۔ چنانچہ اس زمانہ میں میں نے بہترین سیاسی و اقتصادی مضامین لکھے اور چار بیش بہا کتابیں تصنیف کیں جن کی دھوم ہوگئی۔ سائرہ کتب بینی کی شیدا تھی، اس کو مجھ سے مدد ملی۔ میں اس کو روزانہ کم سے کم چار گھنٹے پڑھایا کرتا تھا۔ جب وہ اپنی سسرال میں ہوتی جو یہاں سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے تو وہاں جاکر اس کی صحبت سے کیف اندوز ہوتا، کبھی کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا، سب سمجھتے تھے کہ ہم کو ایک دوسرے کے ساتھ محض ادبی لگاؤ ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بات مشہور ہونے لگی کہ مجھے اُس سے غیرمعمولی اُنس ہے جو ممکن ہے کوئی خطرناک صورت پکڑلے۔ ہمارا سکون چھن گیا، دونوں متردد رہنے لگے۔ مگر ابھی ہماری پرانی روش میں سرموفرق نہیں آیا۔ سائرہ نے صورتِ حال سے تجاہل عارفانہ کیا اور میں بھی چپ رہا۔ نہ اُس نے مجھ سے کچھ کہا اور نہ میں نے اُس سے۔ بیاہی عورت کو چاہنا عیب سمجھا جاتا ہے، دنیا والوں کے دماغ میں محبت اور معصیت کا تصور پہلو بہ پہلو آتا ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ محبت کرنے والوں کا دامن کبھی آلائشوں سے پاک رہ سکتا ہے۔


’’سائرہ کے ساتھ میری شیفتگی کی کوئی انتہا نہ تھی، اس سے دور رہ کر میرا جی کسی کام میں نہ لگتا تھا، میں ہر وقت اس سے قرب چاہتا تھا۔ یہ شیفتگی لوگوں کی نگاہ سے نہ بچ سکی۔ میں سائرہ کی ذرا سی تکلیف دور کرنے کے لیے ہر وقت اپنی جان نثار کرنے پر آمادہ رہتا۔ میں سائرہ کی محبت کو اپنی مغفرت کاذریعہ سمجھ رہا تھا۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ میری نجات صرف اس لیے ہوگی کہ میں نے سائرہ کو دل و جان سے چاہا۔ ہاں تو ہماری محبت رُسوا ہونے لگی۔ احسان علی صاحب مجھ سے کشیدہ ہوگئے۔ ابوظفر نے مجھ سے سردمہری کابرتاؤ شرو ع کردیا۔ رشتہ داروں میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ سائرہ کی کلفتوں کی انتہا نہ تھی میں دلگیر رہنے لگا۔ وقت نازک ہوگیا تھا اور اب کم از کم میرے لیے ضبط سے کام لینا دشوار ہوگیا تھا، آخرکار وہ دن بھی آگیا جب ہم دونوں کے تکلف کا پردہ فاش ہوگیا۔ سائرہ نے میری زبان سے سن لیا کہ میں اس کے لیے اپنے دل میں ایک معبد تیا رکرچکا ہوں اور میں جان گیا کہ سائرہ میرے جذبات سے اس طرح متاثر ہوچکی ہے کہ اب وہ مجھ سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتی۔


’’ایک روز کا ذکر ہے کہ سائرہ کی ساری میں سانپ لپٹ گیا۔ میں اس کے قریب کسی سوچ میں کھڑا تھا، اس کے ہاتھ میں ’’کلیات نظیری‘‘ تھی۔ میری نظر سانپ پر جاپڑی، پھر مجھے ہوش نہیں کہ میں نے کیونکر اس کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر پھینک دیا، بعض موقعے ہوتے ہیں جہاں صرف جذبات کی تحریک سے کام ہوسکتا ہے، سانپ کو دیکھ کر اگر میرے حواس بجا رہتے اور میں اپنی ہستی کو بھول نہ جاتا تو شاید سائرہ میری آنکھوں کے سامنے چند منٹ میں دم توڑتی ہوتی۔ میری دیوانہ وار حرکت کا علم گھر میں ہرشخص کو ہوگیا اور اشارے ہونے لگے۔ سائرہ کے کمرے میں بہت سے لوگ جمع ہوئے۔ میں سیدھا باہر گیا اور گیارہ بجے رات تک ’’احسان منزل‘‘ میں داخل ہوا۔


گرمی کا زمانہ تھا میں برآمدہ میں اپنے بستر پر لیٹا سائرہ کے ساتھ اپنی زندگی پر غور کر رہا تھا۔ میں یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ کچھ دنوں بعد مجھے ’’احسان منزل‘‘ کو ’’الوداع کہنا ہے، اگرچہ اس کے ساتھ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ سائرہ سے علیحدہ ہوکر اب میری تمام قوتیں بیکار ہوجائیں گی، یعنی وہ میرے تمام اچھوتے خیالات اور نرالے افکار کی محرک بن چکی تھی۔ میں نے ایک خاص ہستی کو اپنے ذوق عبودیت کا مرکز بنالیا تھا اور اب جو اس کی طرف سے نگاہ پھیر کر دیکھتا تو دنیا بے کیف اور تیرہ و تار نظر آتی۔ اسی کشاکش جذبات میں دو بج گئے۔ یکایک میرے کمرے میں لیمپ کی روشنی جس کو میں دھیمی کر آیا تھا تیز ہوگئی۔ میں نے چاہا کہ اٹھ کر دیکھوں کون ہے کہ اتنے میں سائرہ میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اور دبی ہوئی آواز میں مجھ سے کہا ’’ذرا سُن لو‘‘۔ اس کی آواز سے کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں پائی جاتی تھی۔ میں اس طرح اٹھا جیسے کسی نے مجھ پر سحر کردیا ہو اور اس کے ساتھ کمرے میں چلا گیا، وہ کرسی پر بیٹھ گئی اور بغیر کسی تہمید کے مجھ سے پوچھا ’’آج تم سے جو اضطراری حرکت سرزد ہوگئی تھی اس کے کیا معنی تھے؟‘‘ میں اس طرز تکلم سے متحیر رہ گیا اور باوجود اس کے کہ میرے دل میں بہت کچھ تھا لیکن اس کے سنجیدہ تیور دیکھ کر تھوڑی دیر تک اپنی ساری فصاحت و بلاغت بھول گیا۔ مجھ کو خاموش دیکھ کر اس نے پھر کہا ’’جواب جلد دو، ابھی نہ جانے کتنی باتیں میں جاننا چاہتی ہوں اور وقت بہت کم ہے۔‘‘


وہ ضبط سے کام لے رہی تھی ورنہ اس کے چہرے کے آثار کہہ رہے تھے کہ وہ ایک تاب شکن اور صبر آزما طوفان کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے اس دفعہ ہمت کرکے جواب دیا ’’میں نے جو کچھ کیا اس کے صرف اس قدر معنی تھے کہ اس دنیا کو میں تم سے خالی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔‘‘ میری زبان کھل گئی اور مجھے یقین ہوگیاکہ آج کی رات فیصلہ کن ہوگی۔


’’یعنی تم مجھ سے اس طرح وابستہ ہوگئے ہو کہ اب مجھ سے علیحدہ ہوکر تمہاری زندگی بے مزہ ہوجائے گی۔‘‘ اس کی سنجیدگی میں دُکھے ہوئے دل کی جھلک نظر آرہی تھی۔ اس کی بیباکی اس بات کی دلیل تھی کہ شک و شبہ کی تاب نہیں لاسکتی اور کسی قطعی نتیجہ پر پہنچنا چاہتی ہے۔ ابھی تک وہ جس لہجہ میں بات کر رہی تھی وہ مجھے ناگوار ہو رہا تھا۔ میں نے کہا ’’سائرہ! یہ بات محسوس کرنے کی ہے پوچھنے کی نہیں۔‘‘ میں نے چند الفاظ میں اپنی روداد بیان کردی تھی۔ اب ضبط کرنا سائرہ کے بس کی بات نہ تھی۔ اس نے بے اختیار ہوکر کہا ’’دیکھو جمیل! میرے خیال کو مستحکم نہ ہونے دو، میں جس چیز کو اپنا وہم سمجھنا چاہتی ہوں اس کو سنگین حقیقت بناکر میرے سامنے نہ پیش کرو۔ قیامت برحق ہو یا نہ ہو، موت یقینی ہو یا نہ ہو لیکن یہ امر مسلمہ ہے کہ ہم کو ایک دوسرے سے جدا ہوناہے، پھر اپنے لیے جیتے جی دوزخ تیار کرناکہاں کی دانائی ہے؟‘‘


’’یہ سب مجھے معلوم تھا اور اسی وجہ سے میں نے اب تک تم سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا کہ ممکن ہے تمہاری زندگی بے کیف ہوجائے۔ مگر تم میری فکر نہ کرو، میں اپنی دوزخ کو جنت بنانا جان گیا ہوں۔ میں اس راز سے واقف ہوگیا ہوں کہ محبت کے کانٹے بھی پھول ہوا کرتے ہیں، تم سے محبت کرکے نہ جانے میں نے کیا کیا سیکھا ہے۔ سائرہ! میں بہک رہا تھا تم نے مجھے سیدھے راستے پر لگادیا۔ جب میں سوچتا ہوں کہ سائرہ ایسی ہستی کو میں چاہتا ہوں تو میں اپنی قسمت پر گھمنڈ کرنے لگتا ہوں۔


’’زاں نیازے کہ بتو ہست مرانازے ہست‘‘


’’بس! بس! اس سے زیادہ سن کر میں جی نہیں سکتی جب کہ ہمارا ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی دشوار ہو رہاہے۔ دنیا والے اس کو گوارانہیں کرسکتے کہ دو پاک روحیں آپس میں ملیں۔ میرے والد اس قدر آزاد خیال ہوتے ہوئے بھی اب تمہارا میرے ساتھ رہنا معیوب سمجھتے ہیں۔ میں رفتہ رفتہ تم کو اپنا سمجھنے لگی تھی اور میرا دل تمہاری طرف کھنچا اور اس طرح کہ پھر اسی طرف کا ہوکر رہ گیا۔ میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی، یہ کوئی گناہ نہ تھا۔۔۔‘‘


سائرہ اس سے زیادہ نہ کہہ سکی، اس کی زبان رُک گئی اور بے اختیار رونے لگی۔ یہی ایک موقع میرے زندگی میں ایسا ہوا جب کہ میں نے سائرہ کو پیار کیا، اس وقت قیود کی پابندی کے کوئی معنی نہ تھے، میں نے اس کو بے ساختہ اپنی گود میں لے لیا۔ میری آغوش میں وہ اور بھی جی کھول کر روئی۔ خود میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں مگر میں رو نہ سکا۔ جب سائرہ کا دل کچھ ہلکا ہوا تو اس نے میرے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا ’’جمیل! میں کہہ نہیں سکتی کہ میں تم کو کتنا چاہتی ہوں۔ اس عرصہ قلیل میں میرے دل پر محبت کا وہ نقش بیٹھا ہے جو مٹائے مٹ نہیں سکتا۔ مجھے یقین تھا کہ تم میرے ہو اور میں اپنے کو خوش نصیب سمجھنے لگی تھی۔ آہ! مجھے دھوکا ہوگیا کہ اب تک اپنی زندگی میں جو کمی محسوس کر رہی تھی وہ پوری ہوگئی، یعنی مجھے ایک ہم مذاق رفیق مل گیا، مگر ہم ایک دوسرے سے چھینے جارہے ہیں۔ بتاؤ تو ہم نے کون سا ایسا گناہ کیا تھا جس کی یہ سزا تجویز کی جارہی ہے، تمہاری لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔ دیکھتے ہو جمیل! تم ابھی تک بے راہ چل رہے تھے۔ خدا کے لیے اس ’’پریشان خواب‘‘ سے چونکو اور مجھے بھول جاؤ۔ مجھے بھول جاؤ اور اپنے کو سُدھارو، میں تمہارے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر رہی ہوں۔ تم جاؤ اور دنیا کی مقبول عام زندگی بسر کرو، مجھے خود دیکھو کہ میں دوسرے کی ملکیت ہوکر رہ گئی ہوں اور تمہاری کوئی اُمید مجھ سے پوری نہیں ہوسکتی، پھر اپنے کومیرا مبتلاکیوں بناؤ؟‘‘


سائرہ نے پھر رونا شروع کیا، مجھے معلوم ہوگیا کہ اس کا گھاؤ میرے گھاؤ سے زیادہ خطرناک ہے۔ عورت کا دل یوں بھی مرد کے مقابلہ میں زیادہ زخم پذیر ہوتا ہے۔ اس کو مجھ سے محبت ہوگئی تھی اور یہ اس کی پہلی محبت تھی۔ دنیا اس کو سائرہ کی کمزوری سمجھے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہی اس کی سب سے زبردست قوت تھی۔ بہرحال اب وہ مجھے بھول نہیں سکتی تھی۔ لیکن سب سے زیادہ روح فرسا صدمہ جو اس کے لیے تھا وہ یہ تھا کہ میری شادی ہونے والی ہے۔ دوران گفتگو میں وہ کئی بار مجھ سے کہہ چکی تھی کہ ’’تم میرے ہو‘‘ اور اس خیال سے وہ بے چین ہو رہی تھی کہ میں کسی اور کا بھی ہوسکتا ہوں۔ یہ افواہ میں نے بھی سنی تھی کہ احسان علی صاحب اور میرے دوسرے خیرخواہ میرے لیے رفیقۂ زندگی کی تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن میں اپنا فیصلہ کرچکا تھا۔ میں نے سائرہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’سائرہ! میں یوں بھی شادی نہ کرتا اس لیے کہ میں شادی کرنے والے جانوروں میں سے نہیں ہوں اور اب جب کہ تم میری زندگی کو نت نئی رنگینیوں سے معمور کرنے کے لیے مل گئی ہو تو ناممکن ہے کہ میں ان رنگینیوں میں کسی قسم کی آلودگی پیدا کروں۔ میں تمہارا ہوں اور تمہارا رہوں گا۔ میں تم سے دور رہ کر صرف تمہاری یاد کے سہارے جی سکتا ہوں۔ قرب و دوری یا وصال و ہجر کی اصطلاحیں میرے لیے کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں۔ البتہ آج تم نے ایک تشویش پیدا کردی ہے۔ اگر مجھ سے دور رہ کر میرے خیال سے اپنی زندگی کو پرکیف بنانا تم کو دشوار معلوم ہوتا ہے تو خدا کرے تمہارا دل مجھ سے پھر جائے ورنہ برباد ہوجاؤگی۔ یہ نہ ہونا چاہیے۔ محبت کو جو لوگ دُکھ بنالیتے ہیں میں اُن کو تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ میں عنقریب الٰہ آباد چھوڑنے والا ہوں، تم اس انقلاب کا مقابلہ کرو اور اطمینان کے ساتھ اب تک جیسی زندگی بسر کرتی رہی ہو بسر کرو۔ وعدہ کرو کہ میرے کہنے پر عمل کروگی؟‘‘


میں نے دیکھا سائرہ کی حالت مجھ سے زیادہ تشفی کی محتاج ہے۔ مجھے اندیشہ کیا یقین تھا کہ میری جدائی اس کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔ اسی لیے میں اس سکون کے ساتھ اس سے گفتگو کر رہا تھا، ورنہ خود مجھ میں اتنی تاب نہ تھی۔ کائنات میری نظر میں بے رنگ ہو رہی تھی۔ سائرہ کو میں چھوڑ رہاتھا۔


سائرہ کو میری گفتگو سے بہت کچھ تسکین ہوئی۔ اس نے اپنے آنسو پوچھ کر کہا ’’ہاں! تم میرے ہو اور میں تمہاری، دنیا کی کوئی قوت فی الحقیقت ہم کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی۔ خواہ ہمارے درمیان بعدالمشرقین ہی کیوں نہ حائل ہو۔‘‘


’’ہاں بس یہ سمجھ لو اور پھر تم کو کوئی دُکھ نہ ہوگا۔ محبت تو ایک مزے کی چیز ہے اس میں تلخیاں نہ پیدا کرو۔ میں ایک ہفتہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا، تم اپنا جی نہ کُڑھانا، میں دنیا میں بڑے سے بڑا کام تمہارا نام لے کر اور تمہاری راہ میں کروں گا۔ بس جاؤ اور شگفتہ رہنے کی کوشش کرو۔‘‘ میں نے اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر اپنا جملہ ختم کیا۔


’’لیکن اس قدر جلد آپ کو مجھے چھوڑدینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ سائرہ نے حسرت ناک لہجہ میں کہا۔


’’سائرہ! مجھے ثابت قدم رہنے دو۔ تم کو معلوم نہیں کہ اب ہمارا یک جا رہنا کیا کیا بدمزگیاں پیدا کرسکتا ہے۔ محبت ایسے ماحول میں اظہار کے بعد خوفناک ہوجایا کرتی ہے۔ میں تم کو مٹانا نہیں چاہتا۔‘‘ میں نے کہا۔ لیکن اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں ’’تم مٹاؤ یا نہ مٹاؤ میں تو مٹ چکی۔‘‘ میں نے اس کو رخصت کردیا کیونکہ چار بج چکے تھے اور خود بیٹھ کرسوچنے لگا۔ میں بیان نہیں کرسکتاکہ میرے دل ودماغ کی کیا حالت تھی۔ سائرہ کے نوید محبت سے مجھ کو بے انتہا سکون ہوا مگر خود اس کی حالت مجھے بے چین کر رہی تھی۔ بہرحال تھوڑی دیر تک میں ایسی دنیا میں تھا جہاں بجز میرے اور سائرہ کے کسی دوسری چیز کا وجود نہ تھا۔ انصاری صاحب! معلوم ہوتا ہے اس وقت سے صدیاں گزر گئیں۔‘‘


جمیل کے خیالات کا مرکز بدل گیا اور اس کی آنکھوں میں پھر آنسو بھر آئے۔ اس نے تصویر کی طرف دیکھا اور عجیب پر اثر لہجہ میں یہ شعر پڑھا،


شمیمِ مہر زباغِ وفا نمالی ید
بہر چمن کہ تو بشگفتۂ صبا خفتہ است


میں نے دیکھا اب وہ پھر بہک رہا ہے اس لیے آدھا گلاس بھر کرشراب اس کو دی جس سے اس کا جوش عود کرآیا اور وہ داستان کاباقی حصہ سنانے لگا،


’’اب افسانہ زیادہ طول نہیں ہے، مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو اس قدر زحمت دے رہا ہوں،


اس رات کے بعد میں کل دس دن الٰہ آباد میں رہا اور اس درمیان میں سائرہ سے بہت کم ملا، ورنہ اپنے ارادہ پر شاید قائم نہ رہ سکتا۔ مگر اتنا مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کی آزردگی بڑھ رہی تھی۔ احسان علی صاحب وغیرہ کو بھی خبر ہوگئی تھی کہ میں نے لاہور میں ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹری قبول کرلی ہے اور اب الٰہ آباد کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔ انھوں نے رسماً مجھے روکنا چاہا۔ لیکن میں بچہ نہ تھا، اُن کا بشرہ کہہ رہا تھا ’’خس کم جہاں پاک‘‘ آہ! اُن کو یہ خبر نہ تھی کہ اُن کی ’’بہترین دولت‘‘ بھی اس ’’خس‘‘ کے بعد ان کے پاس زیادہ دنوں تک نہ رہے گی۔ میں خود سمجھتا تھا کہ سائرہ کو زمانہ بہلائے گا لیکن محبت نے اس کو پختہ منفر بنادیا تھا۔ مرد اپنی محبت کو فلسفہ، ادبیات، شاعری صناعی اور دوسری دلچسپیوں میں بہلالے گا۔ لیکن عورت ایسا نہیں کر سکتی۔ وہ جب محبت کرتی ہے تو محبت ہی کی ہو کر رہ جاتی ہے، اور یہی ہوا، لاہور میں میں نے مختلف مصروفیتیں نکال لی تھیں اور میرا وقت کٹ جایا کرتا تھا۔ اسمیں شک نہیں کہ سائرہ کاخیال مجھے بے چین رکھتا تھا اور میں ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو بھولتا نہیں تھا۔ میں اخبار میں گورنمنٹ کے خلاف مقالے لکھتا تھا اور سمجھتا تھاکہ سائرہ ان کو پڑھ کرخوش ہوگی، میں تقریریں کرتا تھااور ایسا محسوس کرتا تھا کہ سائرہ بیٹھی سُن رہی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ کھدرپوشی اور ترک تعاون کی شورش ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل رہی تھی۔ لاہور میں میں اس شورش میں نمایاں حصہ لے رہا تھا، میں سکون و اطمینان سے محروم ہوچکاتھااور اب اس پر شور زندگی میں میری پراگندہ دلی کام آگئی، مجھے فخر ہے کہ میں نے عوام کی صلاح و بہبود میں کافی حصہ لیا ہے۔ سائرہ کی محبت نے مجھے ایک کارآمد چیز بنادیا۔ غالبؔ نے اگر کبھی کفر بکا ہے تو وہ اس شعر میں،


عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
عشق انسان کو انسان بنادیتا ہے۔ خیر!


سائرہ سے علیحدہ ہوکر مجھے اپنی زندگی کی پروا نہیں تھی۔ چنانچہ جب ایک اشتعال انگیز تقریر پر مجھ کو دوسال قید کی سزا ملی تو میں نے اس کو جنت سمجھا۔ مجھے اپنی ذات سے ضد ہوگئی تھی۔ میں تین سال سے اسی طرح کُرتہ اور دھوتی میں بسر کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں اس زمانہ میں سگریٹ اور شراب بہت پینے لگا تھاجس نے میری صحت خراب کرڈالی تھی۔ ڈاکٹر کہا کرتے ہیں کہ میرے دل کی حالت اندیشہ ناک ہے۔ مگر مجھے اس کی فکر نہیں۔ قید میں میری تندرستی اور بھی خراب ہوگئی اور مجھے ہلکی حرارت رہنے لگی جو کبھی کبھی تیز بھی ہوجاتی ہے۔


اس تین سال کے اندر میرے اور سائرہ کے درمیان کوئی خط و کتابت نہیں ہوئی تھی۔ جب میں قید سے چھوٹا تو لاہور میں مجھے ایک کارڈ ملا جس میں صرف اس قدر لکھا تھا،


کرچکے تم تو دشت پیمائی
مجھ سے گھر بیٹھے خاک چھنوائی


نیچے دستخط کی جگہ ’’س‘‘ لکھا ہوا تھا۔ مجھے دھکا لگااور اس طرح کہ پھر کبھی میں سنبھل نہ سکا۔ سائرہ کی حالت کا مجھے کوئی علم نہ تھا۔ اس شعر نے سائرہ کی شبیہ میرے سامنے کردی۔ اس نے مجھے اس قابل نہ چھوڑا کہ میں یکسوئی کے ساتھ اپنا کام کرسکتا۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ سائرہ مر رہی ہے۔ اکثر انسان کو بلاکسی توسط کے ہونے والی بات کا علم ہوجاتا ہے۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد مجھے ایک الٰہ آبادی دوست سے معلوم ہوا کہ سائرہ چار ماہ سے بیمار ہے اور حالت مایوس کن ہے۔ ڈاکٹروں نے ’’ورم دل‘‘ تشخیص کیا جو عموماً جان لے کر جاتا ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ چل کر اس کے بسترمرگ پر چار آنسو گراآؤں مگر میری ہمت نہ پڑی۔ میں اپنی ذات کواس کی تباہی کا ذمہ دار سمجھنے لگا تھا، میں اس کا گنہگار تھا۔ میں خودفنا ہونے کی کوشش کر رہا تھا، سائرہ فنا ہوگئی، میں سحت جان سانس لے رہا ہوں۔ سائرہ کے دل میں اس خیال نے جڑ پکڑ لی تھی کہ میں اس کے لیے مٹ رہا ہوں اور وہ اس خیال کو مرتے دم تک نہ نکال سکی۔ ایک مہینہ بعد مجھے اطلاع ملی کہ وہ اپنی ’’مٹی کی خواب گاہ میں ہمیشہ کے لیے سوگئی ہے۔ میں اس کو نہ دیکھ سکا۔‘‘


جمیل پھر تصویر کو مخاطب کرکے کہنے لگا ’’سائرہ! دنیا کے لیے تو مرگئی مگر میرے لیے زندہ ہے۔ میں تجھے اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے دیکھتا ہوں اور تجھ سے اپنے جذبات کااظہار کرلیتا ہوں۔ دنیا والوں کو امیدیں مجھ سے منقطع ہوگئیں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے لگے۔ اخباروں میں چھپ گیا کہ میرا دماغ اپنے افعال متعینہ میں کوتاہی کر رہا ہے۔ لیکن تو خوب جانتی ہے کہ اصلیت کیا ہے۔ اب ایک لمحہ کے لیے تو مجھے فرصت نہیں دیتی کہ میں کوئی دوسرا کام کروں۔‘‘


جمیل چپ ہوگیا اور سرنگوں ہوکر آنسو بہانے لگا۔ جب اس نے سراٹھایا تو میں نے پوچھا ’’اب تم کیا کرتے ہو اور یہاں کس غرض سے آئے ہو؟‘‘


اس نے مجھ کو ایک ایسی نگاہ سے دیکھا جس کے میں معنی نہ سمجھ سکا۔ اور تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد جواب دیا ’’ہاں! ابھی افسانہ کی تکمیل نہیں ہوئی ہے آپ نے اچھا کیا کہ مجھ سے دریافت کیا۔ میں اب بھی لاہور میں اسی اخبار کاایڈیٹر ہوں۔ لیکن میری ایڈیٹری برائے نام ہے۔ میں نے دس مہینے سے نہ ایک حرف لکھا ہے نہ کوئی تقریر کی ہے۔ میرے احباب جاننا چاہتے ہیں کہ مجھ میں یہ انقلاب کیوں ہوا۔ مگر ان کو سمجھانے کی فرصت کسے۔ آج تو نہ جانے کس رَو میں میں نے آپ کے سامنے اپنی سرگزشت بیان کردی۔ آج نہ جانے کیوں مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سائرہ مجھ سے قریب ہے۔ پانچ روز کا ذکر ہے کہ لاہور میں میں اپنے کمرے میں بستر پر پڑا تھا۔ رات کے دو بج چکے تھے۔ مجھے سَہر یعنی بے خوابی کی بیماری ہے۔ تمام رات جاگتا رہتا ہوں اور سائرہ سے باتیں کیا کرتاہوں۔ آپ اُس کو ’’سائرہ کا تصور‘‘ کہیں گے میں اس کو سائرہ کہتاہوں، اورمیرا ایمان ہے کہ وہ سائرہ ہے۔ اس رات کو میں نے دیکھا کہ سائرہ اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے ہوئے میری طرف آرہی ہے اور یہ کہتی جارہی ہے ’’تم میرے ہو، تم میرے ہو‘‘ میں بیتابانہ اس کی طرف بڑھا اور کہا ’’ہاں سائرہ! میں تمہارا ہوں مجھے لے چلو‘‘۔ مگر وہ مجھے پھر تنہا چھوڑ کر چلی گئی۔ دوسرے دن میرا دل الٰہ آباد آنے کے لیے تڑپ رہا تھا، واللہ اعلم کیوں۔ میں آج صبح کو یہاں پہنچا اور ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں۔ میں سائرہ کی قبر پر گیا تھا وہاں مجھے تسکین نہیں ہوئی۔ اس تودۂ خاک کو میں سائرہ نہیں مان سکتا، چنانچہ میں نے سوچا کہ ’’احسان منزل‘‘ چلنا چاہیے، جہاں کا گوشہ گوشہ سائرہ کا آئینہ دار ہوگا، جہاں کی خاک کا ذرّہ ذرّہ سائرہ کی مہک سے بس رہا ہوگا۔ میرا یہاں آنا بے کار نہیں ثابت ہوا، باوجود اس کے کہ یہاں ایک اجنبی رہتا ہے مجھے یہاں بے انتہا سکون حاصل ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ نے پھر کروٹ بدلی ہے اور اب پھر میں سائرہ کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں۔۔۔


مگر آہ! میری یہ قسمت کہاں، مجھے تو ابھی تک نہ جانے کب تک اس دنیائے گردوباد میں رہنا ہے۔ سائرہ کہاں اور میں کہاں! تاہم میرا دل کہتا ہے کہ اب مجھے زیادہ اس طرح جینا نہیں ہے، میرے پھپھڑے داغدار ہوچکے ہیں، دل خراب ہوچکاہے۔ سانس باقی ہے جو میرے اور سائرہ کے درمیان ایک دیوار بنی ہوئی ہے۔ مگر ایسی حالتوں میں اس دیوار کا ٹوٹنا کوئی دشوار کام نہیں ہے۔‘‘


جمیل نے اتنا کہہ کر پھر سرجھکا لیا اور اب وہ ایسی محویت کے عالم میں معلوم ہوتا تھا کہ میری موجودگی کی بھی اُس کو خبر نہ تھی۔ میں اب سے چند گھنٹے پیشتر کے واقعات پر غور کر رہا تھا، مجھ کو معلوم ہوگیا کہ سائرہ یا سائرہ کی روح اس وقت زیرلب کیا کہہ رہی تھی۔ میں علت و معلول کی حیثیت اس کو سمجھنا چاہتا تھا اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ حقیقت کیا ہے۔ جمیل کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی، وہ ابھی سے بھوت معلوم ہوتا تھا، تو کیا وہ سائرہ کا بُلایا ہوا یہاں آیا تھا؟


ساڑھے چار بج گئے تھے، رات اپنے گیسو سمیٹ رہی تھی، اُفق پر صباحت نمودار ہوچلی تھی۔ میں اسی ادھیڑ بن میں مبتلا تھا کہ جمیل چونک کر یہ کہتا ہوا کھڑا ہوگیا،


’’زندہ باش سائرہ! میں تو جانتا تھا کہ تو مجھ کو بلارہی ہے۔ میں تیرے ساتھ چلنے کے لیے یہاں آیا تھا۔ سائرہ! سائرہ! ارے سائرہ! تُو تو ذرابھی نہیں بدلی، جیسی تھی ویسی ہی رہی۔ میں البتہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔‘‘


میں مبہوت رہ گیا۔ ہر سمت سے ’’تم میرے ہو، تم میرے ہو‘‘ کی صدا آرہی تھی اور پھر میرے کمرے سے سائرہ اُسی طرح ہاتھ پھیلائے ہوئے اور ’’تم میرے ہو! تم میرے ہو‘‘ کہتی ہوئی جمیل کی طرف بڑھی اور اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جس طرف سے آئی تھی پھر اُسی طرف چلی گئی۔ جمیل کے منھ سے ایک حرف بھی نہ نکلا۔ میں اس کے بعد بڑی دیر تک حرکت کرنے کے قابل نہ تھا، جیسے مجھ کو کسی نے محسور کردیا ہو۔


سورج اپنی پوری آب و تاب سے نکل آیا۔ میں بیٹھا رات کے مشاہدات پر غور کر رہا تھا۔ میں اس کو خواب سمجھ کر ٹالنا چاہتا تھا۔ لیکن واقعات کچھ اس قدر ترتیب وار میری آنکھوں کے سامنے تھے کہ میں ان کی حقیقت سے انکار نہ کرسکتاتھا۔ اتنے میں مجھے اطلاع ملی کہ ایک شخص میرے مکان کی پشت پر جمنا کے کنارے مرا ہوا پایا گیا، اور بعد کو معلوم ہوا کہ وہ مشہور و معروف جمیل تھا جو قید کے بعد لاہور کے ایک دقیع انگریزی اخبار کا ایڈیٹر تھا۔


اخباروں نے تغریب نامے لکھے، بڑے بڑے اہل قلم نے ماتم کیے۔ میرے خیال میں جمیل کے ماتم کی بہترین صورت یہ تھی کہ اس کی زبان سے سنی ہوئی دستان کو دہرادوں۔ پڑھنے والے مجھ کو مخبوط الحواس سمجھیں گے اور میرا مضحکہ اُڑائیں گے، مگر محض اس خوف سے میں خدا کی خدائی سے تو انکار نہیں کرسکتا۔


آخر میں اتنا اور کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اُس دن کے بعد سے میں نے پھر سائرہ کی صورت نہیں دیکھی، بجز اُس کی تصویر کے جو ابھی تک اس کمرے میں موجود ہے۔ میرے خدمت گار کو بھی پھر کبھی ’’بھوت پریت‘‘ کی شکایت نہیں ہوئی۔