تم کہتے ہو کویتا لکھ دو

تم کہتے ہو کویتا لکھ دو
مجھے خون بہانہ پڑتا ہے


شبدوں کی کھینچا تانی میں
نبضوں کا دھاگہ کٹتا ہے


غم کے نوکیلے نشتر سے
دل پر گدوانا پڑتا ہے


بنجر کاغذ کے سینے میں
خنجر بن جانا پڑتا ہے


نظموں غزلوں کے جھگڑے سے
زخموں کو چھڑانا پڑتا ہے


وہ گلی جہاں وہ رہتا تھا
اس گلی میں جانا پڑتا ہے


اس کی ہر بات بیاں کرکے
پھر نام مٹانا پڑتا ہے


وہ عکس جسے میں یاد نہیں
اسے رقص دکھانا پڑتا ہے


سارے تیور گروی رکھ کر
اس کو چھڑوانا پڑتا ہے


واہ واہ کے مے خانوں میں دھت
گھر لے کر آنا پڑتا ہے


پاگل پن کی حد تک جا کے
پھر واپس آنا پڑتا ہے


سب چترائی بک جاتی ہے
جب شونیہ کمانا پڑتا ہے


آتش بازی آتش بازی
خود کو ہی جلانا پڑتا ہے


زیور نہیں تعویذ ہے یہ
پرتوں میں چھپانا پڑتا ہے


کہتے ہو ایک کویتا لکھ دو