تم جس کو ڈھونڈتے ہو یہ محفل نہیں ہے وہ

تم جس کو ڈھونڈتے ہو یہ محفل نہیں ہے وہ
لوگوں کے اس ہجوم میں شامل نہیں ہے وہ
رستوں کے پیچ و خم نے کہیں اور لا دیا
جانا ہمیں جہاں تھا یہ منزل نہیں ہے وہ
دریا کے رخ کو موڑ کے آئے تو یہ کھلا
ساحل کے رنگ اور ہیں ساحل نہیں ہے وہ
دنیا میں بھاگ دوڑ کا حاصل یہی تو ہے
حاصل ہر ایک چیز ہے حاصل نہیں ہے وہ
عالمؔ دل اسیر کو سمجھاؤں کس طرح
کمبخت اعتبار کے قابل نہیں ہے وہ