Sajjad Baluch

سجاد بلوچ

  • 1976

سجاد بلوچ کے تمام مواد

16 غزل (Ghazal)

    ہمیں تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے

    ہمیں تو کل کسی اگلے نگر پہنچنا ہے متاع خواب تجھے اب کدھر پہنچنا ہے کراہتا ہے سر راہ درد سے کوئی مگر مجھے بھی تو جلدی سے گھر پہنچنا ہے ہمارا کیا ہے کدھر جائیں اور کب جائیں نکل پڑو کہ تمہیں وقت پر پہنچنا ہے کبھی تو پائے گی انجام کشمکش دل کی کہیں تو معرکۂ خیر و شر پہنچنا ہے ہواؤ ...

    مزید پڑھیے

    سرخ مکاں ڈھلتا جاتا ہے اک برفیلی مٹی میں

    سرخ مکاں ڈھلتا جاتا ہے اک برفیلی مٹی میں اور مکیں بھی دیکھ رہے ہیں یہ تبدیلی مٹی میں ان گلیوں کے رمز و کنایہ یوں وحشت آثار ہوئے میں تو دل ہی چھوڑ کے بھاگا اس لچکیلی مٹی میں خمیازہ ہے بام و در پر جانے کن برساتوں کا نم دیدہ پل گھوم رہے ہیں ہر سو سیلی مٹی میں اک صحرا میں رونے والے ...

    مزید پڑھیے

    لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی

    لہر اس آنکھ میں لہرائی جو بے زاری کی ہم نے ہنستے ہوئے پھر کوچ کی تیاری کی مجھ کو جس رات سمندر نے اتارا خود میں میں نے اس رات بھی ساحل کی طرف داری کی ہم نے گریہ کو بھی آداب کے اندر رکھا اپنے اعصاب پہ وحشت نہ کبھی طاری کی نقش پا ڈھونڈھتا پھرتا ہے سحر کا وہ بھی جس پہ اک رات بھی گزری ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ پائی نہ مرے سائے میں چلتا سایہ

    دیکھ پائی نہ مرے سائے میں چلتا سایہ آ گئی رات اٹھانے مرا ڈھلتا سایہ تم نے اچھا ہی کیا چھوڑ گئے ویسے بھی ایک سائے سے بھلا کیسے سنبھلتا سایہ میں وہی ہوں مرا سایہ بھی وہی ہے اب تک میں بدلتا تو کوئی رنگ بدلتا سایہ میں نے اس واسطے منہ کر لیا سورج کی طرف مجھ سے دیکھا نہ گیا آگے نکلتا ...

    مزید پڑھیے

    زمزمہ اضطراب کچھ بھی نہ تھا

    زمزمہ اضطراب کچھ بھی نہ تھا عشق خانہ خراب کچھ بھی نہ تھا میرا سب کچھ تھا صرف ایک سوال اور اس کا جواب کچھ بھی نہ تھا سانس تک تو گنے چنے ہوئے تھے کچھ نہ تھا بے حساب کچھ بھی نہ تھا سجدۂ شکر نے بچایا ہے ورنہ میرا ثواب کچھ بھی نہ تھا اب تجھے دیکھ کر یہ جانا ہے وہ جو دیکھا تھا خواب کچھ ...

    مزید پڑھیے

تمام