تم بھٹک جاؤ تو کچھ ذوق سفر آ جائے گا

تم بھٹک جاؤ تو کچھ ذوق سفر آ جائے گا
مختلف رستوں پہ چلنے کا ہنر آ جائے گا


میں خلا میں دیکھتا رہتا ہوں اس امید پر
ایک دن مجھ کو اچانک تو نظر آ جائے گا


تیز اتنا ہی اگر چلنا ہے تنہا جاؤ تم
بات پوری بھی نہ ہوگی اور گھر آ جائے گا


یہ مکاں گرتا ہوا جب چھوڑ جائیں گے مکیں
اک پرندہ بیٹھنے دیوار پر آ جائے گا


کوئی میری مخبری کرتا رہے گا اور پھر
جرم کی تفتیش کرنے بے خبر آ جائے گا


ہو گیا مٹی اگر میرا پسینہ سوکھ کر
دیکھنا میرے درختوں پر ثمر آ جائے گا


بندگی میں عشق سی دیوانگی پیدا کرو
ایک دم عاصمؔ دعاؤں میں اثر آ جائے گا