طلوع منظر کی آنکھ چپ ہے
صعوبت جاں قرن قرن ہے
زکوٰۃ مہلت ہے لمحہ لمحہ
وہ انگلیاں اب تھکی ہوئی ہیں
جنہوں نے
برگ خزاں زدہ کی ہتھیلیوں پر
بدن کی پہلی صدا لکھی تھی
لہو کی پہلی دعا لکھی تھی
جنہوں نے ایمن کی وادیوں میں
حجر حجر پر
تمام مخلوق ارض کے نام
زندگی کے عتاب لکھے
صداقتوں کے نصاب لکھے
وہ ہونٹ بھی
اب لہو لہو ہیں
جنہوں نے پشت سفر پہ مہر فنا کو چوما
جنہوں نے صحرا میں شام آئی
تو اوس کے بوند بوند گرنے کی
آرزو کے سلام پھیرے
جنہوں نے ہر صبح
اونٹنی کے تھنوں سے بہتی کرن کرن پر
یتیم بچوں کو پالنے کا ثواب مانگا
خدا سے اپنی مصیبتوں کا حساب مانگا
وہ ساری آنکھیں
غروب منظر کے دلدلوں میں دھنسی ہوئی ہیں
جنہوں نے صحرا میں
چشمۂ صبح صندلیں پر
وہ لوگ دیکھے
جو حلقہ حلقہ عناد میں تھے
گروہ اہل فساد میں تھے
جنہوں نے سر سبز شاخساروں کے سائے سائے
گزرتی نہروں کے خواب دیکھے
سفر سفر بس سراب دیکھے
صعوبت جاں قرن قرن ہے
زکوٰۃ مہلت ہے لمحہ لمحہ