عطائے رائیگاں

مرے سینے کو اپنی جگمگاتی انگلیوں سے چیرنے والے
تو مجھ پر میرے آنے والے دن کو بے جہت کر دے
کہ میں نے جس قدر جانا ہے
اتنے دکھ اٹھائے ہیں
مرے اندر مرے سارے سفر کا
بے نوا بیکار پن
آتش فشاں لاوے کی صورت سانس لیتا ہے
کہ جیسے بند جوہڑ کے کھڑے پانی میں کیڑے کلبلاہٹ ہیں
تعفن انگنت لفظوں کی لاشوں پر بچھے
کالے کفن کا ماتمی لمحہ
میں تیرے علم کی بخشی ہوئی مجبوریوں کے حبس میں
اپنی کراہیں نظم کرتا ہوں
نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں
مرے سینے کو آ کر کھول
اپنا علم اپنا نور مجھ سے چھین لے
لیکن مجھے پھر سے مری حیرانیاں دے دے