ٹک دیکھیو یہ ابروئے خم دار وہی ہے

ٹک دیکھیو یہ ابروئے خم دار وہی ہے
کشتہ ہوں میں جس کا سو یہ تروار وہی ہے


منصور سا کوئی نہ ہوا خلق جہاں میں
اس مملکت فقر کا سردار وہی ہے


پوچھا جو میں اس سے کہ حضورؔ ایسا کوئی اور
گاہک بھی ہے یا ایک خریدار وہی ہے


اتنی جو اذیت اسے دیتا ہے تو ہر دم
کیا قابل جور و ستم اے یار وہی ہے


کہنے لگا ہم لوگوں کا مشرب تو یہی ہے
جو کوئی بہت چاہے گنہ گار وہی ہے