ٹرانس جینڈر ایکٹ کو سمجھیں آسان ترین انداز میں

 

 اس موضوع کے پہلے حصے میں آپ نے ٹرانس جینڈر کے مسئلے کی قانونی تاریخ مختصراً دیکھی اور جانا کہ آج یہ کہاں کھڑا ہے۔ اس حصے میں ہم براہ راست 2018 کے ایکٹ پر آئیں گے جس پر الزامات لگ رہے ہیں کہ ٹرانس جینڈر کی آڑ میں اس قانون نے ہم جنس پرستوں کو قانونی سہارا دیا ہے۔ اس حصے میں ہم تفصیل سے جانیں گے کہ مسئلے کی جڑ کیا ہے، اس قانون کے حق میں کیا دلائل ہیں، خلاف کیا دلائل ہیں اور پھر دونوں اطراف کے دلائل کے بعد کون سے سوالات ہیں، جن کا جواب وہی ہے جو مشتاق خان صاحب نے 2021 میں ترمیمی بل متعارف کروا کر پیش کیا ہے۔ اگر مشتاق خان صاحب کے بل پر غور نہ بھی کیا جائے تو بھی ایسے مسائل سامنے آئیں گے جن کے حل کے لیے رجوع اسی حل سے کرنا ہوگا جو مشتاق خان صاحب پیش کر رہے ہیں۔ 

لیکن آئیے سب سے پہلے قانون کو تفصیل سے سمجھتے ہیں کہ ہے کیا؟

2018 کا ٹرانس جینڈر ایکٹ ہے کیا؟

 2018 کے اس قانون کو آفیشل نام "ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشن ایکٹ 2018" دیا گیا ہے۔ جیسا کے نام سے واضح ہے، اس میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق اور ان کو معاشرے کا باعزت شہری بنانے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس قانون کی ضرورت پر کسی کو اعتراض نہیں ۔ کیونکہ ہر ایک کو اس کا ادراک ہے کہ حقیقی ٹرانسجینڈرز کس قدر معاشرے کا مظلوم طبقہ ہے۔ لیکن اس قانون میں موجود کچھ تعریفات اور شقوں پر ضرور اعتراض ہے۔ ان کی موجودگی سے وہ افراد جو حقیقی ٹرانسجینڈر نہیں ہیں، ضرور اپنے مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ بہر کیف اس قانون کو سات چیپٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا چیپٹر ابتدائیہ کے نام سے ہے، جس میں اس قانون کی دستاویز میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تعریف اور وضاحت کی گئی ہے۔ اسی میں ٹرانسجینڈر کی تعریف، صنف کی شناخت کی تعریف، صنف کے اظہار کی تعریف وغیرہ تنازع کا باعث ہیں۔ پھر دوسرا چیپٹر ہے۔ دوسرے چیپٹر میں بیان کیا گیا ہے کہ کس کو ٹرانس جینڈر تسلیم کر کے اس کے مطابق شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات مثلاً پاسپورٹ اور لائسنس وغیرہ جاری کیا جائے گا۔ اس میں حکومتی محکموں کو بشمول نادرا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ٹرانسجینڈرز کو ان کی صنف کے ذاتی تصور کی بنیاد پر دستاویزات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ پھر تیسرا چیپٹر ہے۔ اس چیپٹر میں ٹرانس جینڈر کے تحفظ کے لیے معاشرے اور گھر میں مختلف امور جیسا کہ روزگار، ٹرانسپورٹ، حکومتی محکموں میں امتیازی سلوک پر پابندی لگائی گئی ہے۔

 چوتھے چیپٹر میں ٹرانس جینڈر کی معاشرے میں قبولیت اور شمولیت بڑھانے کے لیے حکومت پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔ ان میں یہ کہ حکومت ٹرانس جینڈرز کے لیے خصوصی رہائش گاہیں بنائے،ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے، معاشرے میں ان کی خاطر آگاہی بڑھائے، ان کے لیے الگ قید خانے بنائے، کاروبار قائم کرنے میں سہولیات فراہم کرے،وغیرہ وغیرہ۔ پانچویں چیپٹر میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق بتائے گئے ہیں۔ درج کیا گیا ہے کس اصول کے تحت انہیں وراثت دی جائے گی، ان سے تعلیم کے حصول کے لیے کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا، روزگار میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوگا۔ بتایا گیا ہے کیسے ٹرانسجینڈر ووٹنگ کے لیے پولنگ سٹیشن میں جائیں گے۔ 

 چھٹے چیپٹر میں اس قانون کے اطلاق کا طریقہ کار درج کیا گیا ہے۔ ساتواں چیپٹر بقایاجات کے نام سے ہے، جس میں چند دیگر اصول و ضوابط درج کیے گئے ہیں۔ 

ٹرانس جینڈر تحفظ حقوق قانون 2018 کو قانونی نقطہ نظر سے سمجھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

قانون پر اعتراضات:

 آئیے آسان ترین الفاظ میں اعتراضات سمجھتے ہیں۔ یہ اعتراضات پہلے اور دوسرے چیپٹرز کی شقوں پر ہیں، جو کہ ماندہ قانون کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو سمجھیں کہ اس قانون میں جنس اور صنف یعنی جینڈر اور سیکس میں فرق کیا گیا ہے۔ کیا فرق کیا گیا ہے؟ قانون خود جینڈر آئڈنٹٹی یا صنفی شناخت کی تعریف میں وضاحت کرتا ہے۔ شق 2F کے مطابق صنفی شناخت کسی انسان کی وہ شناخت ہے جو وہ خود اندر سے محسوس کرتا ہے کہ آیا وہ مرد ہے، عورت ہے یا تیسری قسم۔ وضاحت کرتے ہوئے مزید یہ شق کہتی ہے صنفی شناخت آپ کی اس جنس سے علیحدہ ہو سکتی ہے جو آپ کو پیدائش کے وقت دی گئی تھی۔ یعنی مزید سادہ کر دوں تو جنس آپ کی بیالوجیکل یا حیاتیاتی شناخت ہے جو ڈاکٹر یا دایہ نے آپ کو دی تھی، آپ کی جسمانی ساخت دیکھتے ہوئے۔ لیکن صنف یا جینڈر آپ کے اپنے احساس کے مطابق آپ کی شناخت ہے۔ آپ خود کو عورت محسوس کرتے ہیں، مرد یا کچھ اور۔ اس کا آپ کی جسمانی ساخت سے زیادہ تعلق نہیں کیوں کہ وہ تو جنس یا سیکس ہے، صنف یا جینڈر نہیں۔ جینڈر کا تعین آپ خود کریں گے۔ ڈاکٹر آپ کا سیکس بتا سکتا ہے جینڈر نہیں۔ اور اس قانون میں تمام تر مراعات، تحفظ اور سہولیات ٹرانس جینڈر کو دی گئیں ہیں، جنس کو نہیں۔ اب اعتراض سادہ ترین الفاظ میں یہ ہے کہ سہولیات، تحفظ اور مراعات ٹرانس سیکس کو ہونا چاہیے ٹرانس جینڈر کو نہیں۔ یعنی وہ جس کا تعین ڈاکٹر صاحب جسمانی ساخت کا معائنہ کرنے کے بعد کریں اور بتائیں کہ محترم یا محترمہ مرد یا عورت میں سے نہیں۔ اب آپ کہیں کہ نہیں نہیں کوئی مرد یا عورت خود کو ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا کیسے کہہ سکتا یا سکتی ہے؟ یا جب نظر آ رہا ہے کہ ایک شخص مرد ہے یا عورت ہے تو کیسے ہم مان لیں وہ خواجہ سرا ہے؟ پیارے بھائی قانون آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ آپ فیصلہ کریں کہ فلاں تو مرد ہے یا فلاں تو عورت۔ یہ اس کا اپنا احساس بتائے گا کہ وہ کیا ہے؟ اگر وہ کہہ رہا ہے کہ وہ مرد خواجہ سرا ہے تو لازم ہے کہ آپ مانیں اور اسی طرح اگر وہ کہہ رہا ہے کہ میں عورت خواجہ سرا ہوں تو آپ مانیں کہ وہ وہی ہے جو وہ کہہ رہا ہے۔ خود کو ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا کہلوانے کی کسی مرد یا عورت کو اجازت قانون کی شق 2N کی ذیلی شق تین دیتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ شق تین کی ذیلی شقیں تو حکومتی محکموں کو بھی پابند کر دیتی ہیں کہ اگر کوئی شخص خود کو خواجہ سرا قرار دلوا لے تو آپ پابند ہیں کہ اس کے احساس کے مطابق اس سے معاملہ کریں۔ نادرا اس کے احساس کے مطابق شناختی کارڈ کا اجرا کرے، پاسپورٹ آفس اسی کے احساس کے مطابق پاسپورٹ دے اور اسی طرح وہ اپنے احساس کے مطابق اپنا لائسنس پائے۔ 

 مذہبی حلقے اور دیگر عوام سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب ہر شخص اپنی صنف کے تعین میں آزاد ہے، تو مرد عورتوں کے شناختی کارڈ حاصل کریں گے اور عورتیں مردوں والے۔ یا اسی طرح جو چاہے گا خواجہ سراؤں کی صف میں جا کر کھڑا ہو جائے گا۔ اس بات کا جواب بہرحال اس قانون کے حمایتی دے رہے ہیں۔ اسی طرح جو چاہے گا وہ خواجہ سرا سے خود کو مرد یا عورت قرار دلوا لے گا۔ اس کا فائدہ تو ہم جنس پرست اٹھائیں گے، ان مذہبی حلقوں کا کہنا ہے۔ یہی بات جماعت اسلامی کے مشتاق خان کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اس سے قانون وراثت، روزگار کے مواقعوں، تعلیم کے حصول سب میں عجیب مشکلات آئیں گی۔ 

ٹرانسجینڈر ایکٹ کے حق میں دلائل:

 وہ جو اس قانون کا دفاع کرر رہے ہیں، عموماً دو دلائل پیش کر رہے ہیں۔ ایک تو وہ اس قانون کے ذریعے ہم جنس پرستی کے فروغ کو سراسر مذہبی سیاسی جماعتوں کا پراپیگنڈا قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس قانونی دستاویز کے ذریعے کوئی مرد خود کو عورت اور اسی طرح کوئی عورت خود کو مرد قرار نہیں دے سکتی۔ یہ قانون خواجہ سراؤں کے لیے ہے اور اس میں صنف کے تعین کے لیے باتیں خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر کی حدود میں رہتے ہوئے ہیں۔ کوئی مرد یا عورت اپنے احساس کی بنیاد پر خواجہ سرا کی کیٹاگری میں آ سکتا یا سکتی ہے ، مرد یا عورت میں نہیں۔ اور اسی قانون کی وضاحت میں 2020 میں آنے والے اصول و ضوابط بتاتے ہیں کہ خواجہ سرا کی کیٹاگری میں آنے والے شخص کو شناختی کارڈ ایکس دیا جائے گا۔ اس شناختی کارڈ کا حامل شخص کسی سے شادی نہیں کر سکتا۔ پھر ہم جنس پرستی کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔ باقی میڈیکل کے مطالبے پر وہ کہتے ہیں کہ ریاست کو اپنے شہریوں پر یقین کرنا چاہیے۔ ایک عام تندرست مرد یا عورت کیوں خود کو خواجہ سرا قرار دے گا یا گی؟ مزید اگر میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے تو وہاں پیسے چلیں گے اور سسٹم کا غلط استعمال ہوگا۔ اس سے خواجہ سرا بہت متاثر ہوں گے۔

سوالات اور تجزیہ:

 اس قانون کے حامیان کا کہنا ہے کہ یہ قانون مرد یا عورت کی بات نہیں کرتا۔ ان کی بات کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس قانون کی شق 2F کسی کی بھی صنفی شناخت کو اس کے اندرونی احساس کے مطابق قرار دیتی ہے تو پھر کوئی بھی مرد خود کو عورت محسوس اور عورت خود کو مرد محسوس کرنے کا دعویٰ کر سکتا یا سکتی ہے۔ ہمارے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں جس پر سائینٹفکلی اس کے احساس کو پرکھا جا سکے۔ معاملہ سارا الجھ سا نہیں جاتا؟ کیوں نہ جنسی اور صنفی شناخت میں فرق کی بحث کو جینڈر سٹڈیز اور نفسیات وغیرہ کے علوم تک ہی محدود رہنے دیتے۔ اس قانون میں زیر بحث جنسی شناخت یا سیکس ہی لایا جاتا جس کا سائینٹفکلی معاینہ کیا جا سکتا ہے، پرکھا جا سکتا ہے۔ پھر اسی کے مطابق جو خواجہ سرا ہوتا، اس کی مراعات، تحفظ اور سہولیات کی بات ہوتی۔ 

 باقی اگر اس قانون کا سہارا لیتے ہوئے کوئی مرد یا عورت خود کو خواجہ سراؤں کی فہرست میں لا سکتا ہے تو آپ کو نہیں لگتا ایسے مرد یا عورتیں بائیولوجیکل خواجہ سراؤں کا حق کھائیں گے۔ اس بات کی شکایت تو 2009 سے سامنے آ رہی ہے۔ خواجہ سرا کہہ رہے ہیں کہ وہ جو بائیولوجیکل مرد ہوتے ہیں، خواجہ سرا بن کر ہمارا نام بدنام کرتے ہیں۔ اب ایسی چیز جسے نہ دیکھا جا سکتا ہے، نہ ناپا جاسکتا ہے، نہ پرکھا جا سکتا ہے، کی بنیاد پر اگر کسی مرد یا عورت کو خواجہ سرا بننے کی اجازت دے دی جائے گی، تو کیا ایسا نہیں ہے وہ جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ان کو قانونی جواز مل جائے گا اور عدالت تک کچھ نہیں کر پائے گی۔ 

 اب ذرا تصور کریں ایسے خواجہ سرا کو جو خواتین والی مشابہت رکھتی ہے۔ اور ایسی جگہ پر کام کرتی یا پڑھتی ہے جو خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن وقت آ گیا ہے کہ اسے وراثت ملنی ہے۔ وہ کیا کرے گی کہ نادرا میں درخواست دے گی کہ میرا احساس ہے کہ میں مرد خواجہ سرا ہوں، لہٰذا مجھے اسی کے مطابق شناختی کارڈ دیا جائے۔ اب جب وہ مردوں کے برابر وراثت لے لے گی تو اسے خواتین والی جگہ پر پڑھنا یا کام کرنا ہے۔ لیں بھئی اس کا احساس بدلا اور وہ آ رہی ہے درخواست خود کو خاتون خواجہ سرا قرار دینے کی۔ تماشا نہیں ہوگیا؟ 

 یہ ٹھیک ہے کہ اس قانون کے حمایتی جو ایکس شناختی کارڈ کی بنیاد پر اس کے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کرنے میں معاونت سے انکار کرتے ہیں، ان کی دلیل میں وزن ہے۔لیکن احساس کی بنیاد پر جو اوپر دیے گئے تماشے بیان ہوئے ہیں، ان کا حل کیا ہے؟ خود بتائیں آپ۔ کیا میڈیکل بورڈ نہیں؟ جو ہر شخص کے دعوے کو سائینٹفکلی چیک کر لے۔ یہی بات مشتاق خان صاحب کہہ رہے ہیں۔ اس میں مسئلہ کیا ہے؟ 

ٹرانس جینڈر قانون پر اعتراضات کیوں کیے جارہے ہیں؟ یہاں کلک کیجیے

 اگر کوئی واقعی مرد یا عورت خود کو مخالف صنف سمجھ رہی یا رہا ہے تو کیا ایسا نہیں ہے اسے نفسیاتی مسئلہ یا ہارمونل مسئلہ ہے۔ ایسے شخص کو انتہائی شفقت سے کسی معالج یا ماہر نفسیات کو دکھانا حل ہے یا اس کے لیے قانونی راستے ڈھونڈنا حل ہے۔ خدا کے لیے کچھ تو سوچیں۔ آخر عقل رکھتے ہیں آپ۔

متعلقہ عنوانات