ٹرانس جینڈر اشخاص (حقوق کا تحفظ) قانون 2018، مسئلہ کیا ہے؟(دوسری قسط)

قانون میں ماورائے صنف شخص (ٹرانس جینڈر ) کے کیا بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں؟

ٹرانس جینڈر قانون 2018 :اصل مسئلہ کیا ہے؟ پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے

"ماوراے صنف شخص" کی تعریف سمجھنے کے بعد، اور یہ جاننے کے بعد کہ "کوئی بھی شخص" جب چاہے ماوراے صنف شخص کی تعریف میں شامل ہوسکتا ہے، آئیے اس قانون کی دفعہ 3 کی طرف جو ماوراے صنف اشخاص کےلیے بنیادی ترین اصول دیتی ہے۔

دفعہ 3، ذیلی دفعہ 1نے قرار دیا ہے کہ ماوراے صنف شخص کا یہ حق ہے کہ اس کےلیے اس کے "ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت" (self-perceived gender identity) تسلیم کی جائے۔ 

دفعہ 3، ذیلی دفعہ 2 کا کہنا ہے کہ نادرا سمیت تمام حکومتی محکموں پر لازم ہوگا کہ ماوراے صنف شخص کو اس کے ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کے ساتھ رجسٹر کرے۔ 

دفعہ 3، ذیلی دفعہ 3 کی رو سے ماوراے صنف شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ 18 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد وہ اپنے ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کے ساتھ قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات حاصل کرے۔

دفعہ 3، ذیلی دفعہ 4 آگے بڑھ کر یہ قرار دیتی ہے کہ اگر کسی ماوراے صنف شخص کو پہلے ہی قومی شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہو، تو اس کا حق ہے کہ وہ ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کے ساتھ نیا قومی شناختی کارڈ حاصل کرے۔ 

ان چار باتوں پر اچھی طرح غور کیجیے اور دیکھیے کہ ان دفعات کا مفہوم اور نتائج کیا ہیں؟ 

چونکہ "کوئی بھی شخص" کسی بھی وقت "ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت" کے ساتھ تسلیم کیے جانے کا حق رکھتا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص جو جنسی طور پر مرد ہو اور وہ نادرا کے دفتر جا کر صرف اتنا قرار دے کہ اس کے ذاتی احساس کی بنا پر اس کی صنفی شناخت کو عورت قرار دیا جائے، تو نادرا کے پاس نہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے، نہ ہی نادرا کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس کا طبی یا نفسیاتی معائنہ کرانے کا کہے۔ اب جب ایک مرتبہ اسے سرکاری کاغذات اور دستاویزات میں عورت قرار دیا گیا، تو اسے عورتوں کے سارے حقوق بھی میسر آگئے۔ کسی گرلز کالج میں داخلے سے لے کر قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت تک، کسی بس میں عورتوں کےلیے مخصوص سیٹوں سے لے کر کسی ریستوران میں عورتوں کےلیے مخصوص واش رومز تک؛ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر چونکہ یہ عورت ہے، تو اسے کسی مرد سے شادی کی بھی قانوناً اجازت مل گئی، اور یاد رکھیے کہ یہ سب کچھ اسے "جنس" تبدیل کیے بغیر اور جسمانی ساخت میں تغییر لائے بغیر مل گیا! 

یہی کچھ کوئی بھی خاتون کرسکتی ہے۔ 

اب ان کے ساتھ دفعات 4، 5 اور 6 کو ملائیے جن میں کافی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ماوراے صنف شخص کے خلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا، نہ ہی اسے ہراساں کیا جائے گا، اور اس ضمن میں حکومت کی ذمہ داریوں کی بھی تفصیل دی گئی ہے۔ اگر اس قانون کا اطلاق صرف خنثی اور خواجہ سرا پر ہوتا تو مجھے ان تین دفعات پر شاید کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن چونکہ ان کا اطلاق ماوارے صنف اشخاص پر بھی ہوتا ہے، بلکہ اصلاً یہ قانون بنایا ہی ان لوگوں کےلیے گیا ہے جو اپنی صنف تبدیل کرکے کسی اور صنف میں جانا چاہتے ہیں یا کم از کم اپنی صنف سے نکلنا چاہتے ہیں، اس لیے یہ دفعات بھی بہت خطرناک نتائج کی حامل ہوگئی ہیں۔ 

پھر ماوراے صنف اشخاص کو یہ اختیار بھی مل گیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کے ذریعے وراثت کے احکام بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ مثلاً کوئی جسمانی اور جنسی طور پر عورت اگر وراثت میں زیادہ حصہ لینا چاہتی ہے، تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ وہ نادرا کے پاس جا کر اپنے ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کو مرد کروادے۔ پھر اسے کوئی مرد کا حصہ لینے سے روک نہیں سکے گا کیونکہ اس قانون کی دفعہ 7 کی رو سے یہ لازم ہے کہ وراثت کے حصے بھی ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کے مطابق دیے جائیں۔ (اس پر مزید بحث آگے آرہی ہے۔) 

ان امور کی بنا پر یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ اس قانون کے ذریعے نہ صرف ہم جنس پرست شادیوں اور جنسی بے راہ روی کی دیگر قسموں کو قانونی جواز دیا گیا ہے، بلکہ اس کے ذریعے خاندانی نظام کی جڑیں ہی اکھاڑی جارہی ہیں۔ 

ماوراے صنف اشخاص کےلیے حقِ وراثت 

اب آئیے وراثت کے مسئلے پر۔ 

اس قانون کی دفعہ 7 میں ماوراے صنف اشخاص کی وراثت کےلیے اصول دیے گئے ہیں۔ 

ان میں پہلا اصول یہ ہے کہ ان اشخاص کو وراثت میں ان کا "جائز حق" دینے کے سلسلے میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا "جیسا کہ قانونِ وراثت میں مقرر کیا گیا ہے"۔ اب اگر صرف ان الفاظ کو دیکھیں تو ایک عام شخص کہے گا کہ ان میں غلط کیا ہے؟ امتیازی سلوک تو واقعی نہیں ہونا چاہیے، بالخصوص جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا جائز حق وہ ہے جو قانونِ وراثت میں مقرر کیا گیا ہے۔ 

لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ 

پہلے اس امر کی طرف آئیے کہ "قانونِ وراثت" سے کیا مراد ہے؟ پاکستان میں وراثت کی تقسیم اور مختلف ورثا کے حصوں کے متعلق کوئی تفصیلی قانون موجود نہیں ہے۔ صرف مسلم فیملی لاز آرڈی نینس، 1961ء کی ایک دفعہ 4 ہے جس میں ان یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کےلیے حق مقرر کیا گیا ہے جن کے والد یا والدہ کا انتقال ان کے (یعنی والد یا والدہ کے) باپ یا ماں (یعنی ان پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کے دادا ی/دادیا نانا/نانی) کی زندگی میں ہی ہوگیا ہو۔ (عام طور پر اسے یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے حقِ وراثت کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے۔) اس ایک صورت کے علاوہ کوئی صورت ایسی نہیں ہے جس میں ورثا کے حقِ وراثت کےلیے ہمارے ہاں باقاعدہ قانون سازی کی گئی ہو۔ 

تو پھر پاکستان میں وراثت کس قانون کی رو سے تقسیم ہوتی ہے اور مختلف ورثا کے حصوں کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟

اس سوال کا جواب مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ، 1962ء، کی دفعہ 2 میں ملتا ہے جہاں مختلف موضوعات کی ایک لمبی فہرست دی گئی ہے اور قرار دیا گیا ہے کہ ان امور میں "فیصلے کا قانون" شریعت ہے لیکن "قانون کے تابع" ۔ چنانچہ جہاں قانون میں تصریح کی گئی ہے، جیسے مسلم فیملی لاز آرڈی نینس کی دفعہ 4 میں یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کےلیے حقِ وراثت مقرر کیا گیا ہے، تو وہاں اس قانون کے مطابق حصہ دیا جاتا ہے، لیکن جہاں قانون میں حصے مقرر نہیں کیے گئے، تو وہاں حصوں کےلیے شریعت کی طرف دیکھا جاتا ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ 

اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کیجیے کہ آئین کی دفعہ 227 کی توضیح کی رو سے طے پایا ہے کہ اہلِ تشیع کےلیے ان کے فہمِ قرآن و سنت اور اہل سنت کےلیے ان کے فہمِ قرآن و سنت کے مطابق عمل کیا جائے گا، یعنی اہلِ تشیع کے لیے قانونِ وراثت کی حیثیت ان کی فقہ کو اور اہلِ سنت کےلیے قانونِ وراثت کی حیثیت ان کی فقہ کو حاصل ہے۔ 

یہ بات سمجھ میں آگئی ہے تو اس اصول کی رو سے ماوراے صنف اشخاص کے حقِ وراثت کے تعین کےلیے قانونِ وراثت کا انحصار اس امر پر ہے کہ اس کے مذہبی گروہ کی فقہ اس معاملے میں کیا کہتی ہے۔ 

تاہم ایک تو، جیسا کہ ہم نے تفصیل سے واضح کیا ہے، اس قانون کی رو سے ماوراے صنف اشخاص سے مراد صرف جسمانی طور پر خنثی یا خواجہ سرا نہیں ہیں، بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو جنس کی بنیاد پر صنف سے انکاری ہو کر اپنی صنف تبدیل کرلیتے ہیں، یعنی جسمانی طور پر مرد ہونے کے باوجود شناختی کاغذات میں خود کو عورت یا مرد و عورت کا مجموعہ یا ان میں کچھ نہیں قرار دیں، یا جسمانی طور پر عورت ہونے کے باوجود خود کو مرد یا مرد و عورت کا مجموعہ یا ان میں کچھ نہیں قرار دیں۔ اس لیے دفعہ 7 کی ذیلی دفعہ 1 میں کہی گئی بات جو پہلی نظر میں بہت سادہ اور معصوم لگتی ہے، اتنی سادہ اور معصوم ہرگز نہیں ہے۔

اب آئیے، دفعہ 7 کی ذیلی دفعہ 2 کی طرف جس میں قرار دیا گیا ہے کہ وراثت کے حصوں کےلیے صنف کا تعین شناختی کارڈ پر مذکور صنف سے ہوگا، اور یہ تو آپ دفعہ 3 میں دیکھ ہی چکے ہیں کہ شناختی کارڈ میں صنف کا اندارج کسی شخص کے "ذاتی احساس پر مبنی اظہارِ صنف" پر ہوتا ہے۔چنانچہ آسان الفاظ میں اس ذیلی دفعہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ماوراے صنف اشخاص کو وراثت میں ان کے مذہبی گروہ کی فقہ کے مطابق ان کی جسمانی ساخت پر مبنی صنف کا حصہ نہیں ملے گا بلکہ انھیں وہی حصہ ملے گا جو اس صنف کو ملنا ہے جسے انھوں نے اپنے ذاتی احساس کی بنیاد پر چنا ہے! 

اب اس کے بعد دفعہ 7 کی ذیلی دفعہ 3 پر آئیے، تو اس نے یہ ساری بات جسے یہاں تک گول مول رکھا گیا تھا، صاف صاف بتادی ہے۔ چنانچہ یہاں درج ذیل اصولوں کی تصریح کی گئی ہے:

اولاً: اگر ماوراے صنف شخص مرد ہو (یعنی کسی اور صنف سے اپنے ذاتی احساس کی بنا پر اٹھ کر اس نے مردوں کی صنف اختیارکرلی ہو)، تو اسے مرد کا حصہ ملے گا؛ 

ثانیاً: اگر ماوراے صنف شخص عورت ہو (یعنی کسی اور صنف سے اپنے ذاتی احساس کی بنا پر اٹھ کر اس نے عورتوں کی صنف اختیارکرلی ہو)، تو اسے عورت کا حصہ ملے گا؛ 

ثالثاً: اگر کسی شخص کی صنف کا تعین مشکل ہو، اور یہاں مراد وہ اشخاص ہیں جن کی صنف کا تعین ان کی جسمانی ساخت کی بنا پر کیا جارہا ہو، تو ان کےلیے درج ذیل چار قواعد دیے گئے ہیں:

ایک یہ کہ اگر 18 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد انھوں نے ذاتی احساس کی بنا پر خود کو مرد قرار دیا ہو، تو انھیں مرد کا حصہ ملے گا؛ 

دوسرا یہ کہ اگر 18 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد انھوں نے ذاتی احساس کی بنا پر خود کو عورت قرار دیا ہو، تو انھیں عورت کا حصہ ملے گا؛ 

تیسرا یہ کہ ایک یہ کہ اگر 18 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد انھوں نے ذاتی احساس کی بنا پر خود کو نہ مرد قرار دیا ہو نہ ہی عورت، تو انھیں مرد اور عورت کے حصوں کا اوسط حصہ ملے گا؛ اور 

چوتھا یہ کہ 18 سال سے کم عمر کے شخص کے حقِ وراثت کا مسئلہ ہو، تواس کےلیے صنف کا تعین میڈیکل ڈاکٹر اس کے غالب مردانہ یا زنانہ خصوصیات کی بنا پر کرے گا۔ 

یہاں تین مزید باتیں نوٹ کرلیں، تو یہ تصویر پوری ہوجائے گی:

ایک یہ کہ اس دفعہ میں صنف کا تعین بنیادی طور پر جسمانی خصوصیات کی بنا پر کیا جارہا ہے، سواے ان صورتوں کے جن میں اس شخص کا ذاتی احساس پر مبنی اظہارِ صنف اس کی جسمانی خصوصیات سے مختلف ہو۔ بہ الفاظِ دیگر، یہ قانون بنانے والے یہاں خود بھول گئے ہیں کہ ان کا تو سارا فلسفہ ہی ان مفروضوں پر کھڑا تھا کہ جسمانی خصوصیات پر صنف کا تعین نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ کہ جنس اور صنف میں فرق ہوتا ہے۔ 

دوسری یہ کہ نابالغ بچے کےلیے ہی سہی، یہ قانون بنانے والوں نے یہ دو اصول تسلیم کرلیے ہیں کہ صنف کے تعین کےلیے میڈیکل ڈاکٹر کی راے لینی چاہیے اور یہ کہ ڈاکٹر کی راے اس بات کی تعین کےلیے ہوگی کہ اس شخص کی غالب خصوصیات مردانہ ہیں یا زنانہ۔ سوال یہ ہے کہ یہی اصول 18 سال کی عمر کے بعد کے اشخاص کےلیے کیوں نہیں مانے گئے؟ اس سوال کے جواب پر غور کریں گے تو لبرلزم کے اصل فساد تک رسائی ہوگی۔

تیسری یہ کہ یہاں یہ قانون بنانے والے صنفوں کو دو (مردانہ و زنانہ) تک محدود نہ رکھنے کی بات بھی بھول گئے ہیں اور تفصیلی ضابطہ، بلکہ ضوابط، دے کر یہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس شخص کو وراثت میں حصہ مرد کا ملے گا یا عورت کا۔ یہ کیوں؟ یہ اس لیے کہ لاشعوری طور پر ہی سہی، اور وراثت کے شعبے تک محدود ہی سہی، وہ یہ بات مانتے ہیں کہ شریعت میں صنف بس دو ہی ہیں!

متعلقہ عنوانات