ترشول پر ٹنگی کہانی

گیریج کے اندر بس اتنی ہی جگہ تھی کہ چار پانچ نفوس کسی طرح گزارا کرلیتے۔ زمین پر پوال بچھاکر فرش کی سردی سے بچنے کے ساتھ بستر نرم کرنے کی ترکیب نکالی گئی تھی۔ ایک ٹاٹ تھا جو پوال کو ڈھکے رہتا تھا۔ اس پر ایک معمولی سی چادر بچھی تھی۔ دروازے پر بھی ٹاٹ لٹکا رہتا تھا جو پردے کا کام کرتاتھا۔ اندر مٹی کا ایک چولھا تھا۔ کچھ برتن مٹی اور المونیم کے تھے۔ ایک مٹی کا گھڑا تھا۔ اسٹیل کا ایک گلاس بھی تھا۔ دوچار کپڑے، ایک آدھ خالی بیگ بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے تھے۔ یہ تھی ان کی کل کائنات، پیٹ بھرنے کے نام پر اکثر فاقہ ہی رہتا۔ بچوں کے لیے دن میں ایک بار کچھ نہ کچھ انتظام ہوجاتا تھا، باقی افراد مل گیا تو روزی نہیں تو روزہ کے اصول پر کاربند تھے۔
یہ مختصر سا کنبہ یہاں کا نہیں تھا بلکہ اس شہر سے لٹ پٹاکر آیا تھا جہاں گاندھی جی کے آدرشوں کی بلی دے دی گئی تھی۔ انسانیت نے دم توڑ دیا تھا۔ حیوانیت نے ایسا ننگا ناج دکھایا تھاکہ زمین تھرا گئی، آسماں کانپ گیا تھا۔ وہ کسی طرح بچتے بچاتے یہاں آپہنچے تھے۔ سرچھپانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے ایک صاحب نے اپنا گیریج ازراہِ ہمدردی عنایت کردیا تھاکہ ان کے اندر ایسے لوگوں کو پناہ دینے کا جذبہ ابھی مرا نہیں تھا۔
سب سے بڑے فرد کا نام عنایت حسین تھا۔ ان کی عمر ۵۵۔۶۰ سال کے آس پاس رہی ہوگی۔ شہر میں کپڑے کی سب سے بڑی دُکان انھیں کی تھی جو تین دنوں تک آگ کی لپٹوں میں گھری رہی ،لیکن کسی نے اس کی سدھ نہ لی۔ ان کے ساتھ ان کی بیمار دِکھنے والی بیوی تھی۔ ایک جوان بیٹی بھی تھی جس کے نقوش بے حد تیکھے تھے۔ ساتھ میں دو بچے بھی تھے۔ بڑا لڑکا تقریباً دس سال کا تھا جو اُن کے بیٹے کی نشانی تھا اور چار سال کی بچی تھی جواس کی بڑی بیٹی کی آخری نشانی تھی۔
لڑکی کا نام حنا تھا، وہ انگریزی میں ایم.اے کررہی تھی۔ اونچے خاندان کی بے حد خوب صورت لڑکی کا حال یہ تھاکہ وہ دوسرے کے گھروں میں برتن چوکے کا کام بھی کرنے کو تیار تھی، لیکن اس کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی خوب صورتی اور جوانی تھی جو اسے کہیں بھی چین سے نہیں ٹکنے دیتا تھا۔ ہرشخص یہی چاہتا تھاکہ چند سکے کے عوض وہ اس کی ہوس کا شکار بن جائے۔
اس نے روزگار حاصل کرنے کی بہت کوشش کی، بڑی مشکل سے ایک ٹیوشن ملا۔ وہ غیروں سے اس قدر خوف زدہ تھی کہ ان کے پاس جا نہیں سکتی تھی، اس لیے اس نے اپنی ہی قوم کے افراد پر بھروسہ کیا۔ پانچ سو روپے پر وہ دو تین ماہ تک اس گھر میں بچی کو ٹیوشن پڑھاتی رہی، لیکن چوتھے ماہ بچی کے چھوٹے چچا نے پانچ سو کی بجائے ایک ہزار روپے دیتے ہوئے کہا۔
’’پانچ سو میری جانب سے رکھ لیں وقت ضرورت کام آئے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جو خبیثانہ مسکراہٹ تھی اس کا مفہوم وہ خوب سمجھتی تھی، اس لیے صرف پانچ سو لے کر وہاں سے لوٹی تو دوبارہ ادھر کا رُخ نہیں کیا۔ ایک تو لوگوں سے جان پہچان نہیں، دوسری طرف زیادہ تر سائنس کے ٹیوشن ملتے اور وہ چوں کہ آرٹس کی طالبہ رہی تھی اس لیے اس کے ساتھ مجبوری تھی۔
بہت سے لوگ اس کا جائے مقام دریافت کرتے لیکن وہ اپنے شہر کا نام بتانا نہیں چاہتی تھی کہ اگر کسی کو معلوم ہوجاتا تو اسے ترحم بھری نگاہوں سے دیکھتے اور کرید کرید کر وہاں کے حالات اور واقعات کی تفصیل دریافت کرتے۔ جن مناظر کو وہ بھولنا چاہتی تھی اسے یاد بھی کیسے کرسکتی تھی۔
عنایت حسین کو اس عرصہ میں کسی نے بولتے ہوئے نہیں سنا تھا اور نہ ہی ان کی آنکھیں بند ہوئی تھیں۔ انھیں سونے کی دوا بھی دی گئی، لیکن جیسے ہی آنکھیں بند ہوتیں ان کی چیخیں نکلنے لگتیں۔ ایسا محسوس ہوتا وہ ناقابل برداشت ڈراؤنا خواب دیکھ رہے ہوں۔ جب عنایت حسین کی حالت بگڑنے لگی تو ماں نے اپنے کان سے سونے کی بالی نکال کر بیٹی کے حوالے کردی تھی جو کہ اس کی آخری پونجی تھی، لیکن عنایت حسین کی حالت میں کوئی خاص سدھار نہیں ہوا۔
ایک دن ماں نے بیٹی کو کسی بات پر ٹوک دیا تو وہ قدرے بھڑک اُٹھی تھی۔ وہ تو اب خدا سے بھی منکر ہوگئی تھی۔ اس کا یقین اب گمان میں بدل گیا تھا۔ وہ اب صرف اس پر یقین کرتی تھی جو نظر کے سامنے تھا، اسی لیے وہ کہہ بیٹھی:
’’اب کیا رہ گیاہے امی جان! اب حفاظت کس شے کی کی جائے؟ ایک جان رہ گئی ہے وہ بھی موت سے بدتر ہے۔‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے بیٹی ۔ اﷲ ہی اس آزمائش کی گھڑی میں ہمیں پار اُتارے گا۔‘‘
’’کون سا اﷲ۔۔۔ امی جان!‘‘ حنا بہت تلخی سے بولنے لگی:
’’آپ کس اﷲ کی بات کرتی ہیں؟ اس وقت آپ کا اﷲ کہاں سوگیا تھا جب آپا کا پیٹ چاک کرکے ترشول کی نوک پر ان کے بچے کو ٹانگ دیا گیا تھا۔ وہ بچہ زندہ تھا امی جان! اس کی آخری چیخ آپ نے بھی سنی تھی۔‘‘
’’اُف مت یاد دلاؤ ان باتوں کو۔ جو ہوا اسے ایک ڈراؤنا سپنا سمجھ کر بھول جاؤ۔‘‘
’’آپ بھول سکتی ہیں امی جان! میں نہیں بھول سکتی۔ بھولنا چاہتی ہوں تو اور شدت سے یاد آنے لگتی ہے، اور پھر میں آخر کیا کیا بھولوں؟‘‘
’’بیٹی یہ آزمائش تھی۔ امتحان کی گھڑی گزرگئی۔ اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’یہ طفل تسلی کسی اور کو دیجیے امی جان! اب رہ ہی کیا گیاہے جس کے ٹھیک ہونے کی امید کی جائے، اور اگر امید بھی کی جائے تو آپ ابو جان کو ان کی آواز لوٹا سکتی ہیں۔ ان کے خواب انھیں واپس مل سکتے ہیں؟‘‘ اس کی آواز بھراگئی۔ اس نے اپنی آنکھوں کی نمی کو اپنی ہتھیلیوں سے پونچھتے ہوئے کہا:
’’امی جان! ابو کی یادداشت ہی کیوں نہیں چلی جاتی۔ اس طرح وہ زندہ تو رہ سکیں گے۔‘‘
اس بار اس کی ماں کے صبر کا بندھ بھی ٹوٹ گیا اور وہ غم زدہ ہوکر بولی:
’’وہ کچھ بھی تو نہیں بھول سکتے بیٹی۔ ان کے سامنے ان کے بیٹے بہو کو زندہ پھونک دیا گیا، معصوم بچوں کو بھی شعلوں کی نذر کردیا گیا۔ حاملہ بیٹی کا پیٹ چاک کردیا گیا اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ اس کی آواز ادھوری رہ گئی اور وہ اپنی بیٹی کے گلے سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگی۔
انھیں روتے دیکھ کر عنایت حسین کچھ نہیں کرسکے۔ بس ان کی آنکھوں سے جھرجھر پانی گرنے لگا اور انھوں نے دونوں سسکتے ہوئے بچوں کو خود سے لپٹا لیا۔
’’یہ کتنا بڑا المیہ ہے امی جان کہ شہر میں سب سے بڑی کپڑے کی دُکان جس کی ہو اس کے لخت جگر بغیر کفن کے سرخ انگارے سے لپٹ کر سوگئے۔ اور یہ سب اس کے سامنے ہوا اور وہ اتنا مجبور تھاکہ کچھ بھی نہ کرسکا۔‘‘
حنا نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا اور اس کی ماں عنایت حسین کے بالوں کو سہلانے لگی۔
اس خاندان کے سارے افراد کی نگاہوں میں ایک ایسا خوف تھاکہ وہ ایک دوسرے کو بھی دیکھ کر چونک پڑتے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے وہ دیکھا تھا جس کا تصور بھی اب محال تھا۔ دنیا کی کون سی درندگی تھی جو اُن لوگوں نے خود پر نہیں جھیلی تھی۔
دس سال کا لڑکا تو اتنا خوف زدہ تھاکہ وہ کسی اور مرد کو دیکھ بھی لیتا تو اس کی چیخ نکل جاتی۔ اس نے اپنی معصوم آنکھوں سے اپنی ماں کو سب کے سامنے ننگا کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر یہ بھی دیکھاکہ وہ درندوں کے سامنے چھٹپٹاتی رہی اور وہ سب اسے بھنبھوڑتے رہے۔ اس کا باپ اسے بچانے دوڑا، لیکن آن کی آن میں وہ پٹرول سے نہلا دیے گئے اور پھر سارا منظر سرخ شعلوں میں ڈوب گیا۔ وہ دوڑکر اپنے دادا سے لپٹ کر چیخنے لگاتھا۔ وہ اپنی پھوپھی حناکو دیکھ کر بھی اپنی آنکھیں بند کرلیتا کیوں کہ وہ اب دوبارہ وہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا جوا س کی آنکھیں دیکھ چکی تھیں۔
چھوٹی بچی بالکل گم صم رہتی۔ اس کی آواز دن بھر میں بس کبھی کبھار ہی سنائی دیتی۔ وہ اتنی خوف زدہ تھی کہ دن بھر گیریج کے کونے میں دبکی رہتی۔ نہ جانے یہ احساس اس کے دل میں کیوں کر کرگیا تھاکہ کوئی آئے گا اور اسے بھی ترشول پر ٹانگ دے گا۔
اکیلی حنا پر ہی اس کنبے کی ساری ذمہ داری تھی۔ حالات ابھی بھی ایسے نہیں تھے کہ لوٹ کر جایا جاسکے، کیوں کہ ایسی بھی خبریں اخباروں میں آرہی تھیں کہ جو لوگ لوٹ کر گئے ان کی واپسی قبرستان میں ہی ہوئی۔ حنا کر بھی کیا سکتی تھی، دونوں بچے اسے بے حدعزیز تھے۔ اب تو وہی ان کی ماں اور باپ تھی۔ وہ اس سے مانوس بھی بہت تھے۔ عنایت حسین دن بھر پوال پر پڑے رہتے اور اس کی ماں ان کے پاس بیٹھی رہتی۔ وہ خود بھی دمہ کی مریضہ تھی اور سانس کے جھولے پر سوار رہتی تھی۔
اس بار سردی کا موسم قدرے الگ انداز کا تھا۔ ایسی سردی اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔ پورے شہر کی زندگی منجمد ہوکر رہ گئی۔ بچوں کے اسکول و کالج بند کردیے گئے تھے۔ روزانہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔ اس سردی نے بدن کے اندر کی ہڈی تک کو منجمد کرکے رکھ دیا تھا۔ گیریج کی چھت اسبیٹس کی تھی جس سے سردی اور بھی محسوس ہوتی تھی۔ بھوک تو برداشت کی جاسکتی تھی، لیکن یہ سردی کسی طرح قابو میں نہیں آرہی تھی۔
رمضان کا مہینہ آکر چلا گیا۔ نہ جانے اس مبارک مہینے کی برکتیں کن گھروں کی زینت بنیں؟ عید بھی آئی لیکن محرم کا احساس دلاکر چلی گئی۔ وہ تو کربلا سے گزرکر آئے تھے، اس لیے ان کے لیے ہردن محرم جیسا تھا۔
غیرت مند خاندان تھا۔ کسی کے سامنے ابھی تک ہاتھ نہیں پھیلایا تھا بلکہ ہمیشہ دوسروں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی ہی فکر رہی تھی لیکن اب اپنے پاس تھا ہی کیا۔
چھوٹی بچی کو شدید نمونیا ہوگیا۔ لڑکا بھی بخار میں تپ رہا تھا۔ ماں کو رہ رہ کر چکرسا آنے لگتاتھا۔ عنایت حسین تو بس زندہ لاش تھے جس کی سانسیں چل رہی تھیں جو اپنی پلکیں بند نہیں کرسکتے تھے۔ حالات ایسے تھے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ حنا کرے بھی تو کیاکرے۔ وہ بچوں کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ غیروں کے پاس جا نہیں سکتی تھی اور اپنے تو تھے جو مہربانی کرنے کو بھی تیار تھے لیکن۔۔۔ وہ دن بھر کش مکش میں مبتلا رہی۔ رات بھی اس پر پہاڑ بن کر گزری۔
دوسرے دن وہ بازار سے ضرورت کی ڈھیر ساری چیزیں اُٹھالائی۔ اس میں کئی کمبل تھے، کچھ چادر، کچھ موٹے کپڑے اور کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ بچوں اور ماں کے لیے دوائیاں۔ ماں نے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا، لیکن کچھ بولے بغیراس نے بچوں کو ڈبل روٹی کھلاکر دوا دی اور پھر چولھا جلاکر چائے بناکر ماں باپ کے سامنے رکھتی ہوئی بولی:
’’ابوجان! میں ہار نہیں مانوں گی۔ جب زندہ رہ گئی ہوں تو اس سے لڑوں گی چاہے جو بھی ہوجائے۔۔۔‘‘
عنایت حسین نے ایک نظر سامان پر ڈالتے ہوئے اپنی بیگم کی طرف بے بسی سے دیکھا۔ ان کی نگاہوں میں سوالوں کے جنگل اُگ آئے تھے۔ ماں نے بیٹی کو گھورتے ہوئے دریافت کیا:
’’یہ سارا سامان کہاں سے لائی؟‘‘
’’بازار سے۔‘‘ حنا نے مختصر جواب دیا۔
ماں کی الجھن بڑھ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ وہ حنا سے اور کیا سوال کرے۔ اس نے مشکل سے پوچھا:
’’اس کے لیے رقم کہاں سے لائی، گھر میں تو کچھ بیچنے کے لیے بھی نہیں رہاتھا۔‘‘
یہ سن کر حنا اچانک قہقہہ مار کر ہنسنے لگی۔ یہ ہنسنے کا موقع تو نہیں تھا اور پھر اس حادثے کے بعد آج اس نے پہلی بار اسے یوں ہنستے ہوئے دیکھاتھا۔ اس نے مشکل سے اپنا درد ضبط کرتے ہوئے کہا:
’’بیٹی، تمھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
حنا کے قہقہے میں اچانک بریک لگ گیا۔ اس نے بڑے کرب کے ساتھ اپنے والدین کی جانب دیکھتے ہوئے کہا:
’’میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیاہے کہ آپ لوگوں کو شرمندہ ہونا پڑے۔ میرا ایمان آج بھی سلامت ہے۔‘‘ وہ اچانک سسکنے لگی اور بڑے کرب کے ساتھ بولنے لگی:
’’میں بچوں اور آپ لوگوں کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی اور امی جان آپ نے درست کہاکہ گھر میں اب کچھ بھی ایسا نہیں بچا جسے فروخت کیا جاسکے۔‘‘ وہ رُکی پھر دھیمے لہجے میں بولی۔
’’امی جان۔۔۔ جو چیز آپ لوگوں کی نظروں کے سامنے، دن کے اجالے میں، غیروں نے زبردستی لوٹ لیا اس چیز کو اگر اپنی مجبور ضرورت کے لیے میں نے رات کے اندھیرے میں، اپنوں کو بیچ دیا تو اس میں برائی کیاہے؟ جو چیز بچی ہی نہ ہو اسے اب بچاناکیسا؟‘‘
پھر وہ ماں کے گلے لگ کر یوں رونے لگی جیسے اس کے بعد پھر کبھی نہیں روئے گی!!